اشتراکیت کے بارے میں ہمارے ملک کے ایک بڑے حلقے کی معلومات یا تو بالکل نہ ہونے کے برابر ہیں یا پھر بہت ناقص ہیں۔ اس پر مستزاد اشتراکیت کے مخالفین کا مخالفانہ پروپیگنڈہ ہے جو بہت سی غلط فہمیوں کا موجب بنا ہے۔ البتہ وہ لوگ جن کی اشتراکی ادب تک دسترس ہے اور جنہوں نے کھلے ذہنوں کے ساتھ اس کا مطالعہ کیا ہے وہ اس کے بارے میں آزادانہ طور پر اپنی حقیقت پسندانہ رائے قائم کرنے میں ضرور کامیاب ہوئے ہیں۔ مگر کیونکہ یہ ادب بیشتر انگریزی یا دوسری غیر ملکی زبانوں میں ہے لہٰذا وہ افراد جو ان زبانوں سے واقف نہیں ہیں یا اُن میں اُن کی اہلیت واجبی سی ہے، وہ خواہش کے باوجود اس کے بالاستیعاب استفادے سے محروم ہیں۔ ایسے ہی لوگوں کی ضروریات کے پیش نظر سبطِ حسن صاحب نے یہ کتاب تصنیف کی ہے۔
یہ سوشلزم کی تاریخ کے موضوع پر پاکستان میں چھپنے والی پہلی کتاب ہے۔ اس کتاب میں سوشلزم کی تاریخ کا جائزہ لیتے ہوئے اس کے خیالی اور تصوراتی دور سے آغاز کیا گیا ہے اور مارکس تک اس کا احاطہ کیا گیا ہے جس نے سوشلزم کو ایک سائنسی نظریے کی شکل میں ڈھالنے کا کام کیا۔
اس کتاب نے زبردست شہرت حاصل کی۔ یہ خالص نظریاتی کتاب ہے جس میں انہوں نے سائنٹیفک سوشلزم کی تشریح اور توضیح کی۔ نوجوانوں پر اس کتاب نے طہرے اثرات مرتب کیے۔
‘موسیٰ سے مارکس تک’ برصغیر میں بائیں بازو کے لٹریچر میں بہت اہم اضافہ ہے۔ سید سبطِ حسن کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ تاریخ نگاری میں روایتی عہد بندی (periodization) کے قائل نہیں ہیں۔ وہ انسانی سماج کے ارتقا کو سائنسی زاویے سے دیکھتے ہیں۔ اُن کا طرزِ فکر جدلیاتی ہے اور اسی اصول کوانہوں نے تاریخ نویسی کے دوران بھی برتا ہے۔ یہ کتاب بلا مبالغہ برصغیر میں لکھی جانے والی بائیں بازو کے اکابر کی کتابوں میں سب سے زیادہ پڑھی جانے والی کتاب ہے۔ سید سبطِ حسن کا اسلوب انتہائی سادہ اور تجزیاتی ہے اور یہ بھی اس کتاب کی پذیرائی کا ایک اہم سبب ہے۔ ڈاکٹر سید جعفر احمد کی قابلِ قدر تدوین نے اس کتاب کو قارئین کے لیے مزید مفید بنا دیا ہے