عہد حاضر میں عمومی طور تقریر و تحریر کے چار بڑے محرکات نظر آتے ہیں۔ پیسہ ، شہرت، انا کا اشتہار اور اُس کی توسیع یا انفرادی، گروہی، مسلکی، طبقاتی اور جماعتی مفادات کا تحفظ۔ لیکن ان محرکات کے تحت تقریر و تحریر کا عمل ایسا ہی ہے، جیسے کعبے میں صنم رکھ دیے جائیں۔ تقریر و تحریر کا عمل اگر زندہ رہنے کے ہم معنی نہیں تو اس کا کوئی مفہوم نہیں۔ ایک مسلمان کی زندگی شعور ی ہوتی ہے اور شعور کا تعلق تناظر سے ہے۔ یہ حقیقت کوئی سربستہ راز نہیں کہ ایک مسلمان کازاویۂ نظر اپنے دین، اپنی تہذیب ، اپنے ادبی سرمایے اور اپنی تاریخ کے مسلمات کے سوا کہیں سے نہیں آسکتا۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو تقریر و تحریر کا مطلب اپنے دین، اپنی تہذیب ، اپنے ادبی سرمایے اور اپنی تاریخ کے زاویۂ نظر کا حامل ہونا ہے۔ اگر مسلم معاشرے کے کسی مقرر کی تقریروں یاکسی محرر کی تحریروں میں تناظر کی یہ صورتیں موجود نہیں تو ان تقریروں و تحریروں کی کوئی اہمیت ہی نہیں۔
نقش ہیں سب ناتمام خون جگر کے بغیر
نغمہ ہے سودائے خام خونِ جگر کے بغیر
یہ اللہ تعالیٰ کا میرے مربی، مزکی ، استاد اور محسن ڈاکٹر شکیل شفائی پر خاص کرم ہے کہ انہوں نے گزشتہ کم و بیش ۰۳ سال میں جو کچھ فرمایا یا لکھا ہے اپنے دین، تہذیب ، ادبی سرمایے اور مستند تاریخ کے تناظر میں بیان کیا یا لکھا ہے۔ڈاکٹر صاحب وادی کے مایہ ناز مقرر ، مدرس،استاد، محقق اور صاحبِ طرز ادیب ہیں۔جہاں ان کے پُر اثر بیانات اور علمی دروس کا چرچہ علمی حلقوں میں اکثر ہوتا رہتا ہے وہیں ان کی علمی، فکری، تحقیقی اور ادبی تحریروں کو قدر کی نگاہوں سے دیکھا اورپڑھا جاتا ہے۔ ریاست اوربیرون ریاست بہت سے اربابِ علم و قلم ڈاکٹر شکیل صاحب کے اسلوبِ تحریر کو پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔فی الوقت ڈاکٹر صاحب کی پہلو دار شخصیت پر بات نہیں کرنی ۔اسے کسی اور وقت تک اٹھائے رکھتے ہیں۔ زیر نظر کتاب ”رشحاتِ خامہ“ مصنف محترم کے ان مضامین کا حسین مجموعہ ہے جو گزشتہ کئی سال سے وقتاً فوقتاً سوشل میڈیا کی زینت بنتے رہے ہیں۔ کتاب چھ(6) ابواب پر مشتمل ہے۔(1) شخصیات (2) ادبیات (3) دینیات (4) ذاتی ڈائری کا ایک صفحہ (5)عصریات(6) رحلات۔
پہلے باب شخصیات میں مصنف نے ان شخصیتوں کا خاکہ کھینچا ہے جن سے مصنف کو عصری یا علمی و فکری تعلق رہا ہے۔ پھر چاہے وہ تعلق بلا واسطہ ہو یا بالواسطہ تحریروں یاکتابوں کے ذریعے قائم ہوا ہو۔ڈاکٹر صاحب اس باب میں ابن الحسن عباسی ؒ کے بارے میں لکھتے ہیں:
ابن الحسن عباسی کے موضوعات میں خاصا تنوع پایا جاتا ہے۔ انہوں نے دینی مدارس کی ضرورت و اہمیت پر بھی لکھا،دینی مدارس کے نصاب کا جائزہ بھی لیا، اسلامی صحافت کے اصول بھی بیان کئے، دعوت و تبلیغ اور جہاد قتال کے حدود اربعہ بھی متعین کئے،نوجوانوں کی ذمہ داریوں کو بھی مکشوف کیا، علماءدین کے فضائل لکھے،امام ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ کی محدثانہ شان پر قلم فرسائی بھی کی، مفتی محمود صاحب کی سیاسی بصیرت پر سے نقاب کشائی بھی کی اور مولانا عبید اللہ سندھی کی دینی خدمات اور تفردات کو بھی سامنے لایا۔ حال ہی میں ان کی ایک کتاب” یادگار شخصیات کا احوالِ مطالعہ“ منظر عام پر آئی۔ یہ دلچسپ کتاب ایک مستقل تبصرے کی متقاضی ہے۔“
دوسرا باب ادبیات کا ہے۔ اس میں شامل مضامین جیسے مہک دار گلاب ہیں جن کوگویا چمنستانِ ادب میں سلیقے سے جمع کیا گیا ہے۔اس باب میں ڈاکٹر صاحب کی ادیبانہ شان نکھر کر سامنے آئی ہے۔ذرا کلیم عاجز کے بارے میں اس اقتباس کوپڑھیے اور ڈاکٹر صاحب کے قلم کی داد دیجیے ” کلیم کی شاعری میں بادِ صبا کی خوش خرامی ،بلبلِ چمنستانی کا حسنِ لطافت اور شہبازِ بیابانی کی قوت و شوکت ضرور پائی جاتی ہے تاہم یہ اس کا اصلی رنگ نہیں۔ اپنی اصلی صورت میں یہ ہنگامہ ہائے برق و باراں کی دلآویز بوقلمونی ہے۔ فلکِ نیلگوں کے نیچے نالہِ بلبل اور ویرانیِ دشت کی المناک داستان ہے۔ اس میں فرازِ کوہ سے گرتی ہوئی بہشت گوش نغمات گاتی ہوئی ندیوں کی نرگسیت بھی ہے تاہم معمورہِ زندگی کی بزم پر سرمستیوں کی دیوانگی کا خواب بھی ہے۔
کلیم عاجز داستانِ غم سناتے ہیں، نیرنگِ سرابِ زندگی کی تصویریں دکھاتے ہیں، جگر کے پارے بکھیرتے ہیں لیکن وہ میر و غالب کے قُماش کے شاعر ہیں۔ ناز و غمزہ کو دشنہ و خنجر کہتے ہیں ، بادہ و ساغر میں مشاہدہِ حق کرتے ہیں۔ وہ اختر شیرانی ہیں نہ ساحر لدھیانوی؛ پھر بھی ان کے کلام میں نسیمِ سحر کی تازگی، تبسمِ گُل کی آویزش اور شادابیِ چمن کی رنگیں بیانی ہے۔“
تیسرے باب میں دینیات کے مختلف گوشوں کو اجاگر کرنے والے مضامین شامل ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کی بنیادی حیثیت داعئ اسلام اور معلم کی ہے لہٰذا اس حوالے سے انہوں نے اپنی قلمی صلاحیتوں کو اس میدان کے لیے وقف کر دیا ہے۔ڈاکٹر صاحب کے فکرو نظر میں اعتدال پایا جاتا ہے۔ اس باب سے ایک اقتباس استشہاد کے طور نقل کررہا ہوں لکھتے ہیں:
”اردو داں حضرات کے لئے تفسیروں کا خاصا ذخیرہ موجود ہے۔ مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ کی تفسیر کو مستثنیٰ کرکے کہ یہ تفسیر اردو میں ہونے کے باوجود علماءکے لئے خاص ہے اردو کی تفاسیر میں تفسیرِ حقانی، معارف القرآن ( مفتی محمد شفیع)، معارف القرآن (ادریسی)، تفہیم القرآن، تدبر القرآن، تفسیرِ ماجدی، مواہب الرحمن، تفسیرِ ثنائی، تیسیر القرآن، تفسیرِ خان صاحب بریلوی، ضیاءالقرآن، بیان القرآن ( ڈاکٹر اسرار) وغیرہ تفاسیر کا لا متناہی سلسلہ ہے جس سے استفادے کی راہیں سب پر کھلی ہیں۔ لیکن ان تفسیروں کو پڑھنے کا کوئی یہ مطلب نہ لے کہ وہ خود ہی مفسر بن جائے اور پھر انہی بزرگوں پر ہاتھ صاف کر لے۔ ان تفسیروں کو پڑھنے کا مطلب یہ ہے کہ آپ اپنے لئے قرآن کی تعلیمات و احکامات، اوامر و نواہی، قصص و امثال اور دور جدید میںابھرنے والے فکری، اعتقادی اور عملی مسائل کے حل میں ان سے آگہی حاصل کریں۔ ظاہر ہے تفاسیر کی متذکرہ بالا فہرست مکمل نہیں اس میں اضافے کی گنجائش موجود ہوسکتی ہے۔ قرآنیات کے مختلف موضوعات پر کتابوں کا خاصا ذخیرہ وجود میں آچکا ہے اس سے بھی نفع حاصل کیا جا سکتا ہے۔“
مصنف محترم سالہا سال سے پابندی سے ڈائری لکھتے رہے ہیں ۔ چوتھے باب کو انہیں ڈائری کے اوراق کے لیے مختص رکھا گیا ہے۔ اس کے متعلق مصنف لکھتے ہیں ”ڈائری لکھنے کا معمول ہمیشہ رہا لیکن کبھی اس خیال سے نہیں لکھا کہ اسے شائع کرنا ہے۔فیس بک کی مہربانی سے کبھی کبھار کسی مناسبت سے کوئی صفحہ نذرِ قارئین کرتا رہا۔ وہی صفحات اس مجموعے میں جگہ پا رہے ہیں۔ اس کا باب الگ سے قائم کیا۔“
چوتھے باب ”عصریات “میں نسبتاً جدید مسائل اور واقعات پر خامہ فرسائی کی گئی ہے ۔ اور آخری باب ”رحلات “ میں مختلف اسفار کی دل نشین انداز میں روداد سنائی گئی ہے۔
بہ ہر حال اس کتاب میں شامل مضامین مختصر ہونے کے علی الرغم جامع ہیں۔ اور آج کے مشغولیات والے دور میں ، جب کہ اکثر لوگ وقت کی تنگ دامانی کی شکایت کرتے ہیں، یہ کتاب ان کے لیے معلومات اور فکر کے نئے دریچے کھول سکتی ہے۔امید ہے ڈاکٹر صاحب کی یہ کتاب علمی حلقوں میں ہاتھوں ہاتھ لی جائے گی ۔ نیز ہم توقع رکھتے ہیں کہ آئندہ بھی ڈاکٹر صاحب اپنے گوہر بار قلم سے تشنگانِ علم و ادب کو سیراب کرتے رہیں گے۔
عاصم رسول