Web Analytics Made Easy -
StatCounter

حجاج بن یوسف تاریخ و حقائق

حجاج بن یوسف تاریخ و حقائق

حجاج بن یوسف تاریخ و حقائق

حجاج بن یوسف، ایک ایسا نام جس کے آتے ہی ظلم و جبر، قتل و غارت اور سفاکی و خون ریزی کا تصور ذہنوں میں آتا ہے، تاریخ اسلامی کی شاید ہی کوئی کتاب ہو جس میں اس شخصيت کو ایسے بنا کر نہ پیش کیا گیا ہو جیسے یہ انسان نہیں بلکہ شیطان تھا، جیسے اس آدمی کے دامن میں گناہ اور بدکاریاں ہی ہوں، کوئی نیکی یا اچھا کام سرے سے موجود ہی نہیں، بد قسمتی سے ہم لوگ “مؤرخين” اور “مصنفىين” کی اپنی آراء کو “تاریخ” سمجھ بیٹھتے ہیں، اور تاریخی روایات پر اپنے ذہن کے مطابق تبصرہ نگاری کرنے والوں کو “مؤرخ” سمجھ لیتے ہیں، جبکہ “مؤرخ” کا کام صرف اتنا ہوتا ہے کہ وہ اس سارے تاریخی مواد کو من وعن ذکر کردے جس تک اس کی رسائی ہوئی ہو، اور تحقیق و تفتیش اور جانچ پھٹک “محققین” پر چھوڑ دے کہ وہ اس خام مال میں سے فائدہ کی چیزیں الگ کرلیں اور کوڑا کرکٹ کو الگ کردیں

Hajjaj Bin Yusuf Tareekh o Haqaiq
Hajjaj Bin Yusuf Tareekh O Haqaiq | حجاج بن یوسف تاریخ و حقائق

حجاج بن یوسف بھی ان شخصیات میں سے ہے جس کے ساتھ تاریخ نے انصاف نہیں کیا، اہل سنت کی طرف منسوب کچھ لوگوں نے تو اسے “کافر” بلکہ “اکفر” تک لکھ ڈالا، لیکن اس کی اچھی باتوں اور کارناموں کو دبا دیا جاتا ہے اور بیان نہیں کیا جاتا، حتى کہ اس کی طرف بہت سی ایسی جھوٹی باتیں بھی منسوب کردی گئیں جن کا کوئی ثبوت نہ تھا، حالانکہ انصاف کا تقاضا یہ ہوتا ہے کہ جب کسی شخصیت کی تاریخ لکھی جائے تو اس کی غلطیاں اور برائیاں ذکر کی جائیں تو اس کی اچھائیاں اور نیک کام بھی اگر ہوں تو ان کا بھی ذکر کیا جائے، بد قسمتی سے حجاج بن یوسف کی شخصیت کو ایسے پیش کیا گیا جیسے وہ دنیا کا ظالم ترین اور بدکار ترین انسان تھا

ہاں یہ صحیح ہے کہ وہ ایک سخت گیر اور متشدد گورنر اور والی تھا، جی ہاں وہ ایک گورنر یا والی ہی تھا خود خلیفہ وقت نہ تھا، بلکہ خلیفہ کے حکم کے تابع تھا ،لیکن کبھی کسی نے یہ نہیں سوچا کہ کہیں اس کی یہ سختی اس وقت کے سیاسی حالات کی وجہ سے تو نہ تھی؟ یہ وہ وقت تھا جب خوارج کی پے در پے ریشہ دوانیوں اور شرارتوں نے اموی خلافت کے ناک میں دم کر رکھا تھا، عراق میں یہ حال تھا کہ عراقی شر پسند کسی حاکم کو وہاں ٹکنے نہ دیتے تھے اور جو بھی فتنہ اٹھا وہ عراق سے اٹھتا تھا، ایسے حالات میں اگر خوارج پر کسی نے قابو پایا تو وہ حجاج تھا، اگر کسی نے عراقی شر پسندوں کا قلع قمع کیا تو وہ حجاج تھا، ابن اشعث جیسوں کے خروج ایسے تھے کہ اگر ان پر قابو نہ پایا جاتا تو شاید خلافت امویہ کا خاتمہ ہو جاتا اور ایک بار پھر خانہ جنگی شروع ہو جاتی، حجاج بن یوسف نے اس پر بھی قابو پایا

ظاہر ہے ایسے حالات پر قابو پانے کے لئے سختی کی ضرورت ہوتی ہے اور چونکہ حجاج بھی کوئی آسمان سے اترا ہوا فرشتہ نہ تھا، وہ ایک غیر معصوم انسان تھا، اس سے بھی کئی جگہ حد سے تجاوز ہوا ہوگا، گیہوں کے ساتھ پتھر بھی پیسے گئے ہوں گے، اس سے بھی زیادتیاں ہوئی ہوں گی، اس سے بھی گناہ ہوئے ہوں گے، لیکن کیا اس کا یہ مطلب ہے کہ اسے “اکفر” (سب سے بڑا کافر) لکھ دیا جائے؟ اور یہ باور کروایا جائے کہ اس کے ایسے گناہ ہیں کہ الله تعالى کے لئے اس کی مغفرت کرنا ہی ممکن نہیں (نعوذ الله)

کیا عباسی خلافت کے قیام کے وقت قتل عام نہیں ہوا تھا؟ اس کی تفاصیل کو یوں بڑھا چڑھا کر کیوں بیان نہیں کیا جاتا؟ جن حکومت مخالف باغی تحریکوں کا حجاج نے قلع قمع کیا، ان تحریکوں کو بپا کرنے والوں نے جو کچھ کیا، اس کی تفصیلات کیوں بیان نہیں کی جاتیں؟ کہیں اس کی وجہ یہ تو نہیں کہ حجاج چونکہ خلافت بنی امیہ کا گورنر تھا اس لئے اس کے ذمہ وہ کام بھی لگا دیے گئے جو اس نے نہیں کیے تھے اور جو لوگ اموی خلافت کے خلاف خروج کرتے رہے انہیں ایک سازش کے تحت “مخلص” اور “نفاذ شريعت” کے علم بردار بنا کر پیش کیا گیا (جیسے ہمارے حال ہی کے ایک مؤرخ نے اپنی کتاب میں ابن اشعث کا دفاع کیا ہے)

خراسان و بلاد ما وارء النهر کی فتوحات ہوں (ان میں قتیبہ بن مسلم جیسے سپہ سالار کی فتوحات بھی شامل ہیں) یا محمد بن قاسم کی سندھ میں فتوحات، ان سب کا نگران اور کمانڈر ان چیف حجاج بن یوسف ہی تھا، اس کے علاوہ اور بہت سے ایسے کام حجاج کے نامہ اعمال میں لکھے ہیں جو اس کی شخصیت کے دوسرے پہلو کو بھی ظاہر کرتے ہیں لیکن بد قسمتی سے تاریخ کے طالب علموں کو اس کی شخصیت کا صرف برا پہلو ہی دکھایا جاتا ہے اور سکے کا دوسرا رخ یا تو دکھایا ہی نہیں جاتا یا اس طرح نہیں دکھایا جاتا جس طرح پہلا رخ دکھایا جاتا ہے.

ایک عرب مصنف ڈاکٹر محمود زیادہ نے اپنی تحقیق اور مطالعہ کی روشنی میں حجاج بن یوسف کی شخصیت کے اسی دوسرے پہلو سے پردہ اٹھانے کی کوشش کی ہے جو اب تک تاریخ کے طلبہ کی نظروں سے اوجھل تھا یا جان بوجھ کر اوجھل رکھا گیا تھا، “الحجاج ابن يوسف، المفترى عليه” در اصل ڈاکٹر محمود زیادہ کا “پی ایچ ڈی” کا مقالہ ہے جس کی کامیاب تکمیل پر سنہ 1946 سے جامعہ ازہر سے انہیں “ڈاکٹریٹ” کی سند عطا كى گئی، بعد میں یہ مقالہ کتابی صورت میں سب سے پہلے 1995 میں دار السلام قاهره سے شائع ہوا اور 2010 تک اس کتاب کے سات ایڈیشن شائع ہو چکے تھے جو کتاب کی مقبولیت کو ظاہر کرتا ہے، ضروری نہیں کہ اس کتاب کی ہر بات کے ساتھ اتفاق کیا جائے،لیکن تاریخ اسلامی کے طالب علموں کے لیے اس کتاب کا مطالعہ انتہائی ضروری بھی ہے

اس کتاب کا اردو ترجمہ حارث پبلیکیشنز کی طرف سے کروایا گیا اور اسے نہایت خوبصورت شکل میں شائع کیا گیا ہے، کتاب کا حجم بڑی تقطيع کے 536 صفحات ہیں اور طباعت كا معيار انتہائی عمدہ ہے، بہترین کاغذ اور مضبوط پائیدار جلد (طباعت اور کاغذ کا ذکر اس لئے کر رہا ہوں کہ آج کل کچھ حضرات یہ کہتے ہیں کہ کتاب کی قیمت بہت زیادہ ہے، انہیں چاہیے کہ وہ کبھی یہ بھی معلوم کرلیا کریں کہ آج کل کاغذ کی قیمت کیا ہے اور ایک کتاب کی طباعت پر کتنا خرچہ آتا ہے) .

تاریخ اسلامی کے طالب علم (چاہے ان کا اپنا جو بھی موقف ہو) وہ اس کتاب کا ایک بار مطالعہ ضرور کریں

حافظ عبیداللہ

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *