عصرِ جدید کو جب ہم اس نام سے موسوم کرتے ہیں تو اس میں اپنے آپ جدت اور نئے پن کا وصف پیدا ہوجاتا ہے۔ موجودہ نئے زمانے کے خمار نے دورِ حاضر کے انسان کے سوچنے کے انداز کو ایک خاص رخ پر ڈال دیا ہے۔ چیزوں کو ماننے اور اشیاء وحوادث کو دیکھنے اور اپنے اغراض ومقاصد کو طے کرنے اور دیگر مسائل وامور کا حل نکالنے کا اس کا منفرد مذاق ومنہاج تشکیل پاگیا ہے۔
اس دور میں جملہ ادیان ومذاہب کا عام طور سے اور غیبی ایمانیات وعقائد کا خاص طور سے ایک مخصوص زاویۂ نگاہ سے مطالعہ کیا جاتا ہے جسے یار لوگ تاریخی وسماجیاتی انتقادی منہج کہتے ہیں۔ یا دوسرے لفظوں میں نصوصِ دینیہ کے نقد وتمحیص کے لیے قائم تاریخی مکتبۂ فکر۔اس تاریخی مکتبِ فکر کے مطابق کسی بھی دینی نص کی حیثیت ایک ادبی شہ پارے کی ہے جو لازماً فن کار کی سوچ اور رجحان کے تابع ہوتا ہے اور جس میں فن کار کی علمی، سماجیاتی، سیاسی اور معاشی ذہنیت کے اثرات تلاش کیے جاسکتے ہیں اور پتہ لگایا جاسکتا ہے کہ اسے اپنے فن پر پورا عبور حاصل ہے یا نہیں۔ یہ اور اسی نوع کے کچھ داخلی اور خارجی محرکات وعوامل ہوتے ہیں جو کبھی براہِ راست انسان کو متاثر کرتے ہیں اور کبھی بالواسطہ اس پر اثر انداز ہوتے ہیں۔
کسی بھی ادبی فن پارے کی طرح ادیان ومذاہب میں مقدس ومتبرک اور الہامی سمجھی جانے والی کتابوں کو بھی اس انداز میں نقد ونظر کی خراد پر کسا جا سکتا ہے۔ اسی کا نام نئے علمی وفکری حلقوں میں تاریخی وسماجیاتی انتقادی حسیت ہے۔
یہ تحریک یا مدرسۂ فکر سب سے پہلے مغربی دنیا میں ظاہر ہوا تھااور وہاں سے دھیرے دھیرے عالمِ اسلام میں درآیا اور مغرب کے مشرقی پرستاروں نے یہاں پوری اندھ بھکتی کا ثبوت دیتے ہوئے اسے ہاتھوں ہاتھ لیا۔چنانچہ نام نہاد مفکرین ومصلحین اور انقلاب پسندوں نے اس منہجِ تفکیر کو سر آنکھوں پر بٹھایا اور حر ف بہ حرف اسے برتنا شروع کر دیا۔ دینِ حق اسلام کی مقدس کتابوں پر اس منہج کو تطبیق دیتے ہوئے ان حضرات نے بہت کم کوئی ردّوبدل کیا اور جو کیا تو اس کا زیادہ تر تعلق فنی پہلوئوں سے تھا۔نام نہاد مفکرین اور مصلحین نے فرانسیسکو گیبرایلی (Francesco Gabrieli)کو اپنا مأوی وملجا مانتے ہوئے اس کے دیے اس منہجِ نقد ونظر کو پورے ذوق وشوق سے قبول کر لیا اور اس کی ہدایات پر عمل کرتے ہوئے -بہ قول ان کے-کئی صدیوں کے چڑھے دینی گرد وغبار کو اپنے سروں سے جھٹکنے لگے اور نئے سرے سے دینِ اسلام کا مطالعہ شروع کر دیا۔
جدید مفکرین کو اپنی ملّی تاریخ اور اپنے اسلاف کے کارناموں پر شرم محسوس ہوتی ہے۔ اس لیے اپنے ملّی سرمائے اور تاریخی میراث کے مطالعے کے لیے انھیں مغربی مفکرین سے بحث وتحقیق کے مناہج مستعار لینے پڑے تاکہ کسی بھی پہلو سے ان پر پسماندہ ہونے کی پھبتی نہ کسی جاسکے اور وہ سیخیں نپورتے ہوئے جدید مناہجِ بحث وتحقیق کو برتنے والوں کی فہرست میں اپنا نام لکھا دیں۔
اطالوی محقق گیبرائیلی فرانسسکو [1904ء-1996ء] لکھتا ہے: ’’یہ بات بڑی خوش آئند اور فرحت بخش ہے کہ مشرق سے تعلق رکھنے والے ہمارے بہت سے ساتھی اب علمی بحث وتحقیق کے تاریخی تصور کی سطح تک بلند ہوگئے ہیں اور اپنے ماضی کی عظمت ثابت کرنے کے لیے جدلیاتی اور مناظراتی انداز سے گریز کر رہے ہیں۔مجھے اس بات سے خوشی ہے کہ یہ لوگ اب اپنے ماضی کی تفسیر وتشریح کرنے پر قادر ہوگئے ہیں اور تاریخ کو دہرانا چاہتے ہیں۔ یہ لوگ تاریخِ اسلام کی استشراقی تفسیر وتعبیر سے مطمئن ہیں،بلکہ اس سے آگے بڑھ کر تاریخی حقیقتیں اور گہرائیاں بے نقاب کرنے میں مصروف ہیں۔ اگر یہ رجحان اسی طرح بڑھتا رہا تو وہ دن دور نہیں جب ہمیں بہت زیادہ شادمانی ہوگی اور اس وقت ہم مشرق میں زندگی سے بھرپور اس قوت کا اعتراف کرنے پر مجبور ہوں گے کیونکہ دانشِ مشرق اس بات کی اہل ہو چکی ہوگی کہ گہرے نتائجِ تحقیق پیش کرے اور ترقی پسند اقوام کے شانے سے شانہ ملا کر آگے بڑھے۔‘‘(The Arab Revival، گیبرائلی فرانسسکو:ص۲۸، طبع ۱۹۶۱ئ۔ نیز دیکھیں الفہم الحداثی للنص القرآنی، جیلانی مفتاح:ص۱۳)
اس طرح سے ہمارے علمی وفکری سرمائے میں نئے اشکالات پیدا ہوئے اور مرچکے یا پردۂ گمنامی میں پڑے افکارو خیالات کے اندر نئی روح پھونکی جانے لگی۔گمراہ فرقوں کے وہ تفردات اور شاذ آراء ومواقف دوبارہ اختیار کیے جانے لگے جنھیں ماضی میں علمائے اسلام نے خاموش کر دیا تھا یا حادثاتِ زمانہ نے جن کی عدمِ افادیت ثابت کر ڈالی تھی۔دوبارہ ان افکار ونظریات کے لاشۂ بے جان میں نفخِ روح کیا گیا اور ایسا کرنے والوں کا مقصدِ وحید بس یہ تھا کہ جدید مغربی طرزِ زندگی کو سندِ قبول بخشی جائے۔ مسلمانوں میں سے جو لوگ مغرب پرستی کے اس رجحان کو غلط بتارہے ہیں اور اسے صحیح اسلامی طریقۂ کار سے انحراف قرار دے رہے ہیں ان کی آواز دبائی جائے۔اس مقصد کے لیے فقہی وعلمی سرمائے سے شاذ اور متفرد آراء کا انتخاب کیا جاتا ہے اور انھیں شریعت اور تاریخیت کا ملمع چڑھا دیا جاتا ہے تاکہ ان میں عام مسلمانوں کو کوئی نامانوسیت نظر نہ آئے۔
جدید مفہوم میں فکرِ اسلامی کی پیدائش وافزائش کا سرا بعض محققین نے عالمِ اسلام پر مغرب کی سامراجی یلغار سے جوڑا ہے۔سامراجی طاقتوں نے مسلم ممالک کو فکری وذہنی غلامی کے پھندے میں پھانسنے کے لیے استشراق (Orientalism)کا سہارا لیاتھا۔ مستشرقین یعنی مشرقیات میں دادِ تحقیق دینے والے مغربی اسکالروں نے یہ مفوضہ ذمے داری بہ خوبی نبھائی۔ چنانچہ بحث وتحقیق کے نام پر اسلام اور اسلامی تعلیمات کے بارے میں شکوک وشبہات پھیلائے گئے اور مسلم سماج کی پس ماندگی کی بنیادی وجہ دین پسندی اور اسلام سے ربط وتعلق کو قرار دیاگیا۔
اس سازشی حملے کا مقابلہ کرنے کے لیے بہت سے غیرت مند مسلمان اٹھے۔ مگریہ لوگ بس اس قدر دینی معلومات رکھتے تھے کہ کائنات، انسان اور دنیاوی زندگی کے بارے میں انھیں اسلامی نقطۂ نظر یا دینی تصورات معلوم تھے۔ اس کے علاوہ انھیں مغربی دنیا کے حالات، بالخصوص دین اور سماجی زندگی میں تفریق پر مبنی نظریۂ زندگی یعنی لادینیت (سیکولرزم)کے بارے خاصی میں معلومات حاصل تھیں۔
ان لوگوں نے اپنے کاندھوں پر یہ ذمے داری اٹھائی کہ دین کا دفاع کریں گے،اسلام کی نشر واشاعت میں حصہ لیں گے اور عام مسلمانوں کو لادینیت کے خطروں سے ہوشیار کریں گے۔ان کے ارادے نیک تھے،مگر یہ لوگ علمائے دین نہیں تھے۔ جدید تعلیم یافتہ طبقے سے ان کا تعلق تھا۔ان کے پاس قرآن وسنت کی نصوص کو کما حقہ سمجھنے اور نئے مسائل کے سلسلے میں ان سے استنباط واجتہاد کرنے کی پوری صلاحیت نہیں تھی۔ یہ لوگ نہیں جانتے تھے کہ نصِ شرعی کی کتنی حیثیتیں ہوسکتی ہیں اور کس انداز میں کسی نصِ شرعی کو دلیل بنایاجانا چاہیے۔
ان حضرات کا میدانِ اختصاص تجرباتی علوم (مثلاً میڈیکل سائنس، انجینئرنگ وغیرہ) یا علومِ انسانیہ(مثلاً سائیکلوجی، ایجوکیشن وغیرہ) تھے۔یہ لوگ اسلام کے دفاع میں آگے آئے اور دینِ حق کے فضائل ومحاسن کو عصری زبان واسلوب میں بیان کرنا شروع کیا۔ یہاں تک بات ٹھیک تھی، مگر پھر ان پر اپنے کاز کے تئیں جذباتیت اور انانیت غالب آگئی اور انھوں نے جدید مغربی ذہن کو مطمئن کرنے کے لیے دین میں پیوند کاری شروع کر دی اور ایسے افکار ونظریات پیش کرنا شروع کر دیے جو شرعِ محمدی سے کوئی میل نہیں کھاتے ہیں۔ چنانچہ ان کی مساعی سے فائدے کے بجائے الٹانقصان پہنچنے لگا۔
دین کو مغربی ذوق ونظر کے مطابق ڈھالنے کا یہ رجحان رفتہ رفتہ اب اتنا بڑھ گیا ہے کہ اسلام کے بارے میں ایک عالم گیر علمی تحریف کا اندیشہ پیدا ہونے لگاہے۔ مغربی طاقتیں ایسے لوگوں کی پشت پناہی کر رہی ہیں اور اونچے عہدے اور مناصب کے دروازے اُن کے لیے کھول دیے گئے ہیں۔ اس گروہ کے افکار ونظریات کو جدید اسلامی فکر کا حصہ سمجھا جاتا ہے۔ آج شسیس ضرورت ہے کہ ان فکری مساعی کا صحیح اسلامی تعلیمات کی روشنی میں جائزہ لیا جائے اور کھرے کو کھوٹے سے الگ کیا جائے۔
اس سلسلے میں میری طالبعلمانہ کوشش یہ کتاب ہے۔ جدید فکریات کے بارے میں خاکسار کو جو کچھ پڑھنے اور جتنا کچھ تنقیدی جائزہ لینے کی توفیق ہوئی اس کا ماحصل یہ کتاب ہے۔ اس کا پہلا ایڈیشن ہندوستان میں دہلی(ابجد پبلیکیشن) سے، دوسرا ایڈیشن پڑوسی ملک میں کراچی (ادارہ تحقیقات، بسم اللہ بک ہاؤس) سے شائع ہوا تھا۔ اب یہ تیسرا ایڈیشن مکتبہ الفہیم مئو سے شائع ہوا ہے۔ نئی طباعت میں متعدد مباحث بڑھائے گئے ہیں جس سے کتاب میں تقریباًً دو سو صفحات کا اضافہ ہوگیا ہے۔ امید ہے کہ اب یہ کتاب اپنے موضوع پر زیادہ جامع محسوس کی جائے گی۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اسے قبول فرمائے اور علمِ نافع اور عملِ صالح کا ذریعہ بنائے۔ آمین یا رب العالمین۔
ذکی الرحمن غازی مدنی، جامعۃ الفلاح، اعظم گڑھ