نام کتاب : تذکرۂ علمائے مئوناتھ بھنجن
مولف: مولانا مفتی سعید الحق قاسمی
مئوناتھ بھنجن مشرقی یوپی کا ایک قدیم ومعروف علمی وصنعتی شہرہے، جواپنے علماء ومدارس، دینی علوم وفنون اور صنعت حرفت کی بدولت بین الاقوامی شناخت رکھتاہے۔ یہاں کے باکمال ہنرمندوں نے اپنی اخاذ طبیعت وفنی صلاحیت کاثبوت دستکاری مصنوعات میں پیش کرکے صنعتی دنیا میں مئوشہر کی ایک منفرد پہچان بنائی۔
اسی طرح علمی وادبی دنیا میں اس کا تفوق وامتیاز یہاں کے علماء وادباء اور شعراء کی بدولت قائم ہے۔ ہرفن کی یکتائے زمانہ شخصیات نے اپنی بے مثال وتاریخ ساز علمی ،دینی ،ادبی و شعری خدمات کا پرچم لہرایا ۔ بالخصوص فن حدیث میں ابوالمآثر مولانا حبیب الرحمن الاعظمی اور محدث شہیر ڈاکٹر محمد مصطفیٰ اعظمی جیسے بین الاقوامی شہرت یافتہ عباقرۂ وقت کو دنیا کیسے بھول سکتی ہے، جن کے چشمۂ فیض سے علم حدیث وفن رجال کے متوالے دنیا بھر میں سیراب ہورہے ہیں ۔ ان کے علاوہ درجنوں علماء وفضلاء ہیں جو آسمان علم وفضل پر آفتاب وماہتاب بن کر چمکے۔ آج سے نصف صدی قبل جب ضلع اعظم گڈھ کے علماء کا تذکرہ شائع ہوا تو سب سے زیادہ جس قصبہ اور بستی کے علماء کا تذکرہ اس کتاب میں تھا وہ یہی قصبہ مئو تھا ۔ جبکہ بہت سے علماء کے حالات تک صاحب تذکرہ کی رسائی نہیں ہوپائی تھی۔
تذکرہ علماء اعظم گڈھ کی اشاعت کے بعد تقریباً 15؍ سال بعد مئو کے۔ اس وقت کے۔ ایک نوجوان عالم مولانا سعید الحق قاسمی کو خیال ہوا کہ خود مئو میں علماء کی اتنی بڑی تعداد ہے کہ ان کا علیٰحدہ ایک مفصل تذکرہ لکھا جاسکتا ہے، چنانچہ انھوں نے بنام خدا 1990 ء میں اس دشوار گزار کام کا آغاز کردیا اور دس سال کی طویل محنت وکاوش کے بعد2001ء میں اس کام کو مکمل کرلیا ، لیکن اس وقت اس کی اشاعت مقدر نہیں تھی اس لئے تکمیل کے بعد یہ تذکرہ ایک عرصہ تک منتظر اشاعت رہا ،اور اب 21؍ سال کے بعد 2022ء میںمنظر عام پر آرہا ہے ۔
مصنف کتاب مولانا سعید الحق قاسمی [و: 1952] ایک ذہین وفطین اور باکمال عالم ومفتی ہیں، ان کا تعلق مئو کے ایک علمی خانوادے سے ہے ، ان کے والد ماجد مولانا صفات اللہ صاحب [و: 1914ء۔م: 2007ء] مئو کے ایک بڑے عالم ، دارالعلوم دیوبند کے قدیم فاضل اور حضرت شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنیؒ کے خلیفہ تھے ۔مصنف کتاب نے ابتداء سے لے کر عربی ششم تک تعلیم دارالعلوم مئو میں حاصل کی ، جہاں انھوں نے مولانا افضال الحق جوہر قاسمی ، مولانا محمد امین ادروی ، مولانا شیخ محمد مئوی ، مولانا عبد الحق اعظمی اور مولانا نیاز احمد جہاناگنجی وغیرہ اساطین علم کے سامنے زانوئے تلمذ تہ کیا ۔شوال 1390ء ( 1970ء) میں دارالعلوم دیوبند میں موقوف علیہ میں داخلہ لیا ، اور دوسال یہاں رہ کر شعبان 1392ھ ( 1972ء) میں دورۂ حدیث سے فراغت حاصل کی ۔ اس کے بعد اگلے سال تکمیل ادب عربی میں داخلہ لیا،اور مولانا وحید الزماں کیرانوی کی خدمت میں رہ کر عربی زبان وادب پر بہترین دسترس حاصل کرلی ، اس دوران ایک عربی رسالہ ’’لواء الاسلام ‘‘ کی ادارت کا فریضہ بھی انجام دیا۔ فراغت کے بعد سے اب تک تدریسی خدمات انجام دے رہے ہیں ، اس دوران 1980ء میں جامعہ دارالسلام عمرآباد میں داخلہ لے کر یہاں سے بھی سند فضیلت حاصل کی۔ 1986ء میں جامعۃ الامام الملک سعود ریاض میں چھ ماہ زیر تعلیم رہے ۔ قلم وقرطاس سے بھی تعلق رہا، اردو کے ساتھ عربی زبان پر بھی دسترس رکھتے ہیں ۔متعدد کتابیں اور رسائل آپ کی قلمی یادگار ہیں۔ جمعیۃ علماء ہند سے بھی گہرا تعلق ہے،1995ء سے اس کے جنرل سکریٹری ہیں ۔ ایک عرصہ سے محکمہ شرعیہ کے قاضی اور ذمہ دار ہیں ۔
پیش نظر کتاب764؍ صفحات پر مشتمل ہے۔ اس ضخیم کتاب میں گہوارۂ علم وادب وشہر ہنروراں مئو کے 240؍ علماء کرام کا تذکرہ ہے ، جس میں ان شخصیات کا جامع تعارف اور ان کی حیات وخدمات کو حتی المقدور تلاش وتحقیق اور محنت و کاوش کے ساتھ جمع کیاگیا ہے۔ اس کے لئے مصنف نے کتنی راتیں آنکھوں میں کاٹی ہوں گی اور کتنے دروں کی خاک چھانی ہوگی یہ وہی جانتے ہوں گے ، اس راہ کا راہی ہونے کی وجہ سے مجھے کسی قدر اس کا اندازہ ہے۔ہمارے دیار کے علماء ومشائخ کی تذکرہ نگاری میں میں اولیت کا شرف رکھنے والےمولاناقاضی اطہرمبارکپوریؒ’’ تذکرہ علماء مبارکپور‘‘[جس کا اصل نام شجرۂ مبارکہ ہے) کے مقدمہ میں اپنی کاوشوں کے سلسلہ میں جو کچھ لکھا ہے، اس راہ کے ہر رہ نوردکا کم وبیش یہی حال ہوتا ہے
’’کسی بے آب وگیاہ میدان میں چمن بندی آسان نہیں ہے۔ میں نے اس شجرۂ مبارکہ کو بڑی محنتوں کے بعد ’’شجرسایہ دار‘‘ بنایاہے۔‘‘ ۔۔۔۔۔ میں نے اس کتاب کی تالیف کے لیے معلومات حا صل کرنے میں بڑی محنت کی ہے اور اپنے بزرگوں کے حالات وتراجم کی تلاش میں دن اور رات کی قید سے آزاد رہ کر آبادیوںاور ویرانوں کاچکر کاٹاہے۔ محلوں اور جھونپڑوں میں آیا گیاہوں اور دورونزدیک ہر جگہ سے مطلب کی بات حاصل کی ہے۔ ذمہ داری اور جذبۂ تشکر کے ماتحت جن حضرات نے تراجم کی فراہمی میں مددکی ہے، ان کے نام بھی دے دیے ہیں۔ اس کتاب میں ان ہی حضرات کے تراجم درج کیے گئے ہیں، جن کو موت نے تاریخ کا عنوان بنادیاہے اور جوسلف کے زمرہ میں شامل ہو چکے ہیں۔‘‘
اس کتاب میں بھی انہی علماء کا ذکر ہے جو ’’ زمرۂ سلف ‘‘ میں شامل ہوچکے ہیں ۔ البتہ چند ایسے علماء کو بھی اس میں شامل کرلیا گیا ہے جو ابھی بقید حیات ہیں لیکن ان کی عمر ’’ عمر طبعی‘‘سے زائدہوچکی ہے، جیسے مولانا رشید احمد الاعظمی (و: 1930ء ۔1348ھ) جن کی عمر ہجری اعتبار سے 96؍ سال ہوچکی ہے۔ اسی طرح معروف اہلحدیث عالم ومحدث مولانا شیخ محمد صاحب(و: 1933ء ۔1352ھ) جو ایک واسطے سے میاں سید نذیر حسین محدث دہلوی کے شاگردہیں ، ان کی عمر ہجری سن کے اعتبار سے 91؍ سال سے زائد ہورہی ہے۔ اور ندوہ کے مہتم مولانا سعید الرحمن الاعظمی ( و: 1936ء ۔ 1355ھ) جن کی عمر 89؍ سال سے زائد ہے۔
٢٤٠ علماء میں سے 12؍ حضرات ایسے ہیں جن کا تعلق قصبہ مئو کے بجائے ضلع مئو کے دوسرے قصبات سے ہے۔ اس سلسلہ میں مصنف نے کوئی اصول وضابطہ نہیں بیان کیا ، بس جسے انھوں نے اہم یا مناسب سمجھا شامل کتاب کردیا۔ ان میں مولانا اسلام الحق کوپاگنجی[ سابق استاذ حدیث دارالعلوم دیوبند] ، مولانا مفتی محمد خلیل کوپاگنجی ، مولانا محمد امین ادروی ،مولانا اسیر ادروی،مفتی نظام الدین اعظمی، اورمفتی حبیب الرحمٰن خیرآبادی وغیرہم ہیں۔مفتی حبیب الرحمٰن صاحب خیرآبادی ابھی الحمدللہ بقید حیات ہیں اور ان کی عمر بھی 92؍ سال سے زائد ہے۔ مئو قصبہ سے باہر کے علماء میں دو نام ایسے ہیں جو ضلع مئو سے بھی باہر کے ہیں، ان میں پہلا نام جامع المنقول والمعقول مولانا محمد مسلم صاحب، پوٹریا ضلع جونپور کا ہے، مولانا موصوف ایک عرصہ تک دارالعلوم مئو میں شیخ الحدیث رہے، ان کا انتقال مئو میں ہوا اور ان کی آخری آرام گاہ بھی مئو میں ہی ہے، شاید اس لئے ان کو شامل کتاب کیا گیا ہے۔ دوسرانام مولانا عبد الحق اعظمی جگدیش پوری کا ہے، جو ایک عرصہ تک دارالعلوم مئو میں شیخ الحدیث اور صدر مفتی رہے۔
کتاب کا آغاز مصنف کے کلمات تبریک سے ہوتا ہے جس میں انھوں نے ان حضرات کا شکریہ ادا کیا ہے جنھوں نے کتاب کی طباعت کے سلسلہ میں ان کا تعاون کیا ہے۔ اس کے بعد مئو کے سات علماء کے تاثرات ہیں۔ پھر عرض مرتب ہے جس میں انھوں نے اس کتاب کی تالیف کا سبب اور اس راہ میں پیش آنے والی دشواریوں کا ذکر ہے۔اس کے بعد تیس صفحات پر مشتمل ایک مفصل تمہید ہے جس میں قصبہ مئو کی تاریخ ، اس کے مضافاتی قصبات کا ذکر ، مئو کے ایک درجن سے زائد مدارس کا مختصر تذکرہ، یہاں کے مشاہیر علماء کا ذکر ، یہاں حنفیت وغیر مقلدیت کی کشمکش، بریلوی اور شیعی جماعت کا ذکر ، تبلیغی جماعت کی سرگرمیاں ، جمعیۃ علماء ہند کی خدمات، محکمہ شرعیہ کا قیام اور اس کی کارگزاری، رویت ہلال کمیٹی کا ذکر، مئو کی صنعت وحرفت اور یہاں کے دیگر واقعات وحوادث کا ذکر ہے۔ کتاب سے پہلے اس تمہید کا مطالعہ بہت مفید ہوگا۔
اس تمہید کے بعد ملک کے مشاہیر علماء کرام کی تقریظات ہیں ، جن کے نام یہ ہیں: مولانا سید اسعد مدنی ، مولانا مفتی ظفیرالدین مفتاحی، مصنف کے والد مولانا محمد صفات اللہ صاحب ، مولانا اسیر ادروی ، مولانا حکیم عزیز الرحمٰن اعظمی ، مولانا نور عالم خلیل امینی رحمہم اللہ ، مولانا مفتی حبیب الرحمٰن خیرآبادی ، مولانا فضل الرحمٰن الاعظمی ( مقیم افریقہ )۔
کتاب کا مقدمہ معروف تاریخ نویس ومورخ مولانا محمد عثما ن معروفی کے قلم سے ہے ، جو بڑاجامع ، مفید اور معلوماتی ہے۔
اس کتاب میں سب قدیم عالم مولانا بہادر حسین مئوی ہیں ، جن کی تاریخ وفات 1270ء ہے ، یعنی قیام دارالعلوم دیوبند سے بھی 13؍ سال پہلے۔ اس کتاب میں کئی ایسے علماء کا تذکرہ ہے جن کی وفات تیرہویں صدی ہجری میں ہوئی ، یعنی آج سے ڈیڑھ صدی پہلے۔ عموماً تذکرے دو سے چار پانچ صفحات پر مشتمل ہیں ، لیکن بعض بعض خاصے طویل بھی ہیں ، جیسے ڈاکٹر محمد مصطفیٰ اعظمی کا تذکرہ 72؍ صفحات پر مشتمل ہے ۔ اس کے علاوہ محدث کبیر مولانا حبیب الرحمٰن الاعظمی، ان کے استاذ مولانا عبد الغفار صاحب، مولانا عبداللطیف نعمانی اور مولانا صفات اللہ صاحب کے تذکرے بھی طویل ہیں۔
دوران مطالعہ یہ بات ذہن میں رہنی چاہئے کہ یہ کتاب 2001ء میں لکھی گئی ہے اور شائع 2022ء میں ہوئی ، لیکن بہت سی جگہوں پر آج سے 21؍ سال پہلے لکھی گئی معلومات باقی رہ گئی ہیں ، حالانکہ اس عرصہ میں بہت کچھ تبدیلیاں ہوچکی ہیں ۔ جیسے محدث الاعظمی کی بعض کتابوں کے متعلق لکھا ہے کہ یہ مطبوعہ نہیں ہیں ، جبکہ اس عرصہ میں وہ شائع ہوچکی ہیں ، اسی طرح مولانا عبد الغفار صاحب کی متعدد کتابیں اس عرصہ میں شائع ہوچکی ہیں ۔ میں نے اپنے نسخہ میں اس طرح کی چیزوں پر نوٹ لکھ دیا ہے، امید کہ مصنف اگلے ایڈیشن میں اس کی جانب توجہ فرمائیں گے ۔
دوران تذکرہ جن علماء کرام کے نام آئے ہیں، ان میں سے 71/ علماء کے مختصر حالات حواشی میں مذکور ہیں، جس کی باضابطہ فہرست کتاب کی ابتداء میں ہے۔ کتاب کے اخیر ایسے 33/ علماء کی فہرست ہے جن کے حالات تک مصنف کی رسائی نہیں ہوسکی ہے۔ کسی بھی انسانی کاوش کاکمی اور کوتاہی سےپاک ہونا ممکن نہیں ۔اس میں بھی بہت سی کمیاں اور کوتاہیاں ہوسکتی ہیں ، لیکن جو کچھ مواد مصنف نے اس میں جمع کردیا ہے اس پر وہ قابل ستائش ولائق تحسین ہیں۔ مولانا سعید الحق قاسمی اس کتاب کی تصنیف اور اس کی طباعت واشاعت پرتمام اہل علم کی جانب سے مبارکباد اور شکرئیے کے مستحق ہیں کہ ان کی اس محنت وکاوش کے نتیجہ میں قصبہ مئو کی کئی سوسالہ تاریخ اور یہاں کے سیکڑوں علماء ومشائخ کی حیات وخدمات پر مشتمل یہ مفید تذکرہ منظر عام پر آیا، جس سے ہماری موجودہ نسل اپنی تاریخ اور اپنے اسلاف کے کارناموں اور قربانیوں سے واقف ہوگی ۔ ہوسکتا ہے کہ ان بزرگوں کے تذکروں کو پڑھ کر ان کے اندر بھی ان کے نقش قدم پر چلنے اور کچھ کر گزرنے کا حوصلہ پیدا ہو۔
ضیاء الحق خیرآبادی