₹250.00
یہ کتاب دہلی کے مشہور معروف مدرسہ عبدالرب کی تاریخ ہے ۔ محافظ ربانی سے اس کا ہجری سن تاسیس ۱۲۹۲ھ اور بتاریخ مدرسہ عبدالرب دلی سے عیسوی سن ۱۸۷۵ء برآمد ہوتا ہے۔ دہلی میں چار مدرسوں نے کافی شہرت حاصل کی ،۱۔ مدرسہ امینیہ دہلی ،۲۔ مدرسہ عالیہ فتحپوری ، ۳۔ مدرسہ حسین بخش اور مدرسہ عبدالرب ۔اول الذکر تینوں مدرسوں میں تومتعدد بار گیا ہوں لیکن اتفاق کی بات ہے کہ بکثرت دہلی جانے کے باوجود اب تک اس مدرسہ کی دیدو زیارت سے محروم ہوں۔ اس کتاب کو دیکھنے سے پہلے نہ جانے کس طرح میرے ذہن میں یہ بات بیٹھ گئی تھی کہ مدرسہ عبدالرب ۱۹۴۷ء کے ہنگاموں میں ختم ہوگیا ہے،اس لئے کبھی اس کی جستجو بھی نہیں رہی ۔ اس کتاب کے مولف مولانا ظفرالدین قاسمی کا ممنون ہوں کہ انھوں نے اپنی یہ کتاب بھیج کر ہماری گم شدہ تاریخ کا ایک روشن باب ہمارے سامنے کردیا۔
کتاب کے ابتدائی پچاس صفحات میں قیام مدرسہ سے پہلے سلطنت مغلیہ کا زوال اور دہلی کے حالات، اس وقت علماء دہلی کی دینی جد وجہداور قیام مدارس کی کوشش، خاندان ولی اللٰہی کے نامور سپوتوں کا ذکر ،مولانا عبدالرب دہلوی اور ان کے خانوادے کے ساتھ دہلی کی کچھ دیگر شخصیات کا ذکر ہے۔ صفحہ ۹۸ سے مدرسہ کے قیام سے لے کر اب تک کے تفصیلی حالات ہیں، جس میں مدرسہ کےسرپرست حضرات ، یہاں تشریف لانے والے اہم علماء، مولانا عبد الرب کے بعد مدرسہ کے منتظمین ، مدرسین ، مہتمین وصدرالمدرسین ، ارباب شوریٰ، فارغین وفیض یافتگان سب کا ذکر ہے ، اس کتاب سے پہلی بار معلوم ہوا کہ مولانا محمد منظور نعمانی نے یہاں ایک سال تعلیم حاصل کی ہے اور جامع مسجد دہلی کے سابق امام مولانا سید عبد اللہ بخاری یہاں کے فارغین میں سے تھے۔
In stock
Reviews
There are no reviews yet.