معتزلہ کا معاملہ یہ ہے کہ صرف اپنی عقلوں اور اپنے اصولوں کو ہی اول وآخر جانتے ہیں۔ چونکہ احادیث کے ذخیرے میں ایسے ارشاداتِ نبویہ موجود ہیں جن سے ان کے مذہب کی بنیاد ڈھے جاتی ہے اور ان کے دلائل کی قلعی کھل جاتی ہے، اس لیے انھوں نے سنتِ نبوی کے سلسلے میں نہایت خطرناک طرزِ عمل اختیار کیا ہے۔
معتزلہ کے بارے میں بلامبالغہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ لوگ شریعتِ اسلامیہ کے دوسرے مأخذِ اساسی یعنی سنتِ پاک کو بالکلیہ سبوتاژ کرنا چاہتے ہیں۔ احادیثِ نبویہ کے بارے میں ان کا موقف تناقضات اور تضادات سے پُر ہے جس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ یہ لوگ عقل سے چمٹتے ہیں اور اسے خدائی تقدس کامقام دیتے ہیں اور اس سے ٹکرانے والی ہر دینی نص کی تاویل وتوجیہ کرنا یا اس کا انکار کر دینا ضروری سمجھتے ہیں۔اسی وجہ سے انھوں نے ایسی غلطیوں اور تضادات کا ارتکاب کیا ہے جن کا تصور بھی کسی ہوشمند انسان سے نہیں کیا جاسکتا ہے۔
حدیثِ نبوی کے تناظر میں معتزلہ نے اجماعِ امت کی خلاف ورزی کرتے ہوئے مانا ہے کہ خبرِ متواتر سے بھی قطعی علم کا فائدہ نہیں ہوتا۔ چنانچہ ان لوگوں نے احادیثِ متواترہ کی حجیت اور ان کے بہ موجب علم وعمل کا انکار کیا ہے۔ یہ لوگ مانتے ہیں کہ خبرِ متواتر جھوٹی ہو سکتی ہے۔
امام ابو منصورؒ بغدادی نے معتزلہ کے ذیلی فرقے نظّامیہ کے بار ے میں لکھا ہے:’’ابراہیم بن یسار نظّام معتزلی کی سولہویں فضیحت کا سامان یہ ہے کہ وہ خبرِ متواتر کے بارے میں کہتا ہے کہ چاہے اسے سننے والوں کی تعداد بے حدو بےشمار ہو،اسے نقل کرنے والوں کے محرکات اور ارادے متنوع ہوں، اس کے باوجود یہ جھوٹی ہو سکتی ہے۔ حالانکہ یہی نظّام معتزلی ہے جو کہتا ہے کہ بعض اخبارِ آحاد سے علمِ ضروری کا افادہ ہوجاتا ہے۔ہمارے علماء نے اسی وجہ سے نظّام اور ان لوگوں کی تکفیر کی ہے جو نظّام کی اس رائے میں اس کی ہم نوائی کرتے ہیں۔(الفرق بین الفرق:ص۱۳۷۔ الانتصار ،خیاط معتزلی:ص۲۳۰۔ آراء المعتزلۃ الاصولیۃ دراسۃ وتقویما، علی بن سعد:ص۳۴۷)
نظّام کی اگلی فضیحت کے حوالے سے فرماتے ہیں:’’اس کے فضائح وقبائح میں سترہویں نمبر پراس کا یہ موقف ہے کہ پوری امتِ مسلمہ کسی بھی دور میں غلطی پر اتفاق کر سکتی ہے، یعنی ایسی غلطی جو عقل اور استدلال کی رو سے غلط ہو۔ ایسے میں نظّام کے اپنے اصول کا تقاضا ہے کہ اب وہ اجماعِ امت سے ثابت شدہ کوئی حکم نہ مانے کیونکہ اب اس کے نزدیک ہر چیز مشکوک ومخدوش ہے۔ کچھ احکامِ شرعیہ وہ ہیں جنھیں مسلمانوں نے اخبارِ متواترہ سے لیا ہے اور کچھ وہ ہیں جو احادیثِ آحاد سے ثابت ہیں اور کچھ پر اجماع ہوا ہے اور کچھ کو اجتہاد اور قیاس کے ذریعے سے سمجھا گیا ہے۔ اب جب نظّام معتزلی نے متواتر خبر کی حجیت تسلیم کرنے سے منع کر دیا ہے، اجماع ِ امت کو مشکوک بنادیا ہے، قیاس اور خبرِ واحد بھی اس کے نزدیک دین کا ضروری علم نہیں دیتے تو ایسے میں گویا اس نے شریعت کے جملہ اصولی وفروعی احکام کو کالعدم، بے اصل اور باطل کر دیا کیونکہ اس نے احکامِ شرعیہ کے اثبات کے جملہ ذرائع ہی ختم کر دیے ہیں۔‘‘(الفرق بین الفرق:ص ۱۳۷- ۱۳۸۔ الانتصار، خیاط:ص۲۳۲۔ الملل والنحل:۱/ ۵۰۔ تاویل مختلف الحدیث:ص۲۸)
امام ابوبکر محمد بن موسیٰ الحازمیؒ فرماتے ہیں:’’میرے علم کی حد تک متاخرین معتزلہ کے علاوہ کسی مسلم فرقے نے بھی خبرِ واحد قبول کرتے ہوئے اس میں تعداد کی شرط نہیں لگائی۔مگر معتزلہ نے یہ حرکتِ شنیعہ کی ہے۔ انھوں نے روایت کو گواہی پر قیاس کیااور جو شرطیں گواہی کے لیے ضروری ہوتی ہیں انھیں نقل وروایت کے لیے بھی ضروری قرار دیا۔ ان لوگوں کے کلام کا خلاصہ اور نتیجہ یہ ہے کہ شریعت کے جملہ احکام معطل اور ناقابلِ عمل ہوجائیں جیسا کہ امام ابو حاتم بن حبانؒ نے پہلے ہی یہ علت تشخیص فرمادی ہے۔‘‘ (شروط الأئمۃ الخمسۃ:ص۴۷)
معتزلہ اکابرین ورؤساء نے نقل وروایت میں تعدادِ رُوات کی شرط لگائی ہے اور یہ گنتی کس قدر ہو، اس بارے میں مختلف باتیں کہی ہیں۔ امام ابو منصور بغدادیؒ نے معتزلہ کے ذیلی فرقے ہذیلیہ کے بارے میں لکھا ہے: ’’ابو الہذیل علّاف کی چھٹی فضیحت اس کا یہ کہنا ہے کہ غیر محسوس باتیں -جیسے معجزاتِ انبیاء کا معاملہ ہے- کو بیان کرنے والی اخبار وروایات اسی وقت حجت ہو سکتی ہیں جب انھیں نقل کرنے والے کم از کم بیس صحابہؓ ہوجائیں اور ان میں بیس میں بھی کم از کم ایک صحابی ایسا ہو جس کے جنتی ہونے کی گواہی نبیِ کریمﷺ نے دی ہو۔ کافروں اور فاسقوں کی بتائی باتیں حجت نہیں ہوتیں چاہے بتانے والوں کی تعداد حدِ تواتر کو پہنچ جائے، یعنی چاہے اتنے لوگ بیان کریں جن کا جھوٹ پر متفق ہونا عادتاً محال سمجھا جاتا ہے، الایہ کہ ان میں کوئی ایک مسلمان ایسا پایا جائے جس کے جنّتی ہونے کی گواہی دی گئی ہو۔ابو الہذیل علّاف کے مطابق چار سے کم راویوں کی روایت سے حکمِ شرعی ثابت نہیں ہوتا، جب کہ چار سے بیس تک راویوں کی روایت سے گاہے افادۂ علم ہوتا ہے اور گاہے نہیں ہوتا۔تاہم بیس راوی اگر ایک بات بیان کریں اور ان میں ایک راوی مشہود بالجنت ہو تو اس خبر سے علم حاصل ہوتا ہے۔‘‘
’’اس نے بیس کی تعداد کو حجیت کے لیے مشروط کرتے ہوئے قرآن کی اُس آیت سے استدلال کیا ہے جس میں بیس مومنوں کو دوسو کافروں پر غلبے کی بشارت سنائی گئی ہے۔إن یکن منکم عشرون صابرون یغلبوا مائتینابو الہذیل کا کہنا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بیس مومنوں کے لیے جنگ کی اجازت اس وقت دی ہے جب ان کے پاس کافروں کے خلاف حجت آگئی ہو۔مگر اس آیت سے علّاف کا یہ استدلال ناقص اور بچکانہ ہے۔ اس اعتبار سے تو اسے کہنا چاہیے کہ خبرِ واحد بھی حجت ہے اور اس سے افادۂ علم ہوتا ہے کیونکہ اگر بیس کو دو سو سے لڑنے کی اجازت دی گئی ہے تو اس کا مطلب ہے کہ اس وقت ایک مومن دس سے لڑنے کا مجاز ہے۔اللہ تعالیٰ نے جب ایک کو دس سے لڑنے کی اجازت دے دی تو علّاف کے قول کے مطابق یہ گویا ایک کو دس پر حجت مل گئی، تبھی تو اسے یہ اجازت دی گئی ہے۔‘‘
امام عبدالقادر بغدادیؒ فرماتے ہیں:’’ابو الہذیل نے بیس راویوں کی خبر کو حجت بننے کے لیے شرط لگائی ہے کہ ان میں ایک جنتی راوی بھی ہو۔مگر اس شرط کو مان لیں تو پوری شریعت کا خاتمہ ہوجاتا ہے کیونکہ علّاف کے نزدیک اہلِ جنت وہی مسلمان ہو سکتا ہے جو اس کے اعتزالی اصولوں کا ہم نوا اور تقدیرِ الٰہی کا منکر اور اللہ کے اسماء وصفات کی نفی کرنے والا ہو، اور جس کا یہ عقیدہ ومسلک نہ ہو وہ علّاف کے نزدیک جنتی تو کجا، مومن بھی نہیں ہو سکتا ہے۔ ایسے میں ہمارے پاس وہ ذرائع ہی نہیں ہیں جن سے پتہ لگایا جاسکے کہ کس صحابی کے یہ عقائد وتصورات تھے کیونکہ پتہ لگانے کے لیے نقل وروایت کی ضرورت پڑے گی اور نقل وروایت کے لیے پھر بیس راویوں کی ضرورت ہوگی جن میں ایک جنتی راوی ہو۔ مگر پھر اس جنتی راوی کے عقائد وافکار کی چھان پھٹک کا تقاضا ہوجائے گا۔ ہم کہنا یہی چاہتے ہیں کہ ابو الہذیل کی بات کا نتیجہ یہ برآمد ہوگا کہ شریعت کا ہر حکم ختم ہوجائے۔ اسی لیے یہ ایسی مبتدعانہ بات ہے کہ ابو الہذیل سے پہلے یا اس کے بعد بھی کسی نے آج تک نہیں کہی۔‘‘(الفرق بین الفرق:ٌ۱۲۴-۱۲۵۔ الملل والنحل:۱/۴۷)
خبرِ متواتر کے سلسلے میں علمائے اہلِ سنت والجماعت، بلکہ پوری امتِ مسلمہ کا موقف یہ ہے کہ اس سے علمِ یقینی کا فائدہ ہوتا ہے۔ امام آمدیؒ لکھتے ہیں:’’جمہور فقہائے دین اور اشاعرہ ومعتزلہ متکلمین کا اس نقطے پر اتفاق ہے کہ خبرِ متواتر سے جس علم کا فائدہ حاصل ہوتا ہے وہ علمِ ضروری ویقینی ہے۔عبداللہ بن احمد کعبی معتزلی، ابو الحسین بصری معتزلی اور محمد بن محمد الدقاق شافعی وغیرہ نے البتہ کہا ہے کہ خبرِ متواتر سے بس علمِ نظری حاصل ہوتا ہے۔‘‘(الإحکام من أدلۃ الأحکام :۲/ ۲۷۔ المسودۃ فی اصول الفقہ:ص۲۳۴)
پھر ان میں باہم اختلاف ہوا ہے کہ افادۂ علم کے لیے کم سے کم تعداد کتنی ہونی چاہیے۔(الإحکام:۲/۳۹۔ المسودۃ فی اصول الفقہ:ص۲۳۶۔ البرہان:۱/۲۱۷)
امام ابن حزمؒ نے حافظ حازمیؒ کی بات دہرائی ہے کہ معتزلہ وہ پہلا مسلم فرقہ ہے جس نے قبولِ اخبار میں تعداد کی شرط لگائی ہے اور اس طرح تمام اہلِ قبلہ کی مخالفت کی۔ وہ فرماتے ہیں:’’تمام اہلِ اسلام کا موقف یہ ہے کہ ایک ثقہ راوی کی خبر بھی جو وہ اللہ کے نبیﷺ کی نسبت سے بیان کرے، اسے قبول کیا جائے گا۔ہر فرقہ اپنی دینی معلومات میں اس اصول پر مثل اہلِ سنت والجماعت کے عمل پیرا تھا۔خوارج، شیعہ اور قدریہ کوئی اس کے خلاف نہیں تھے۔ مگر دوسری صدی ہجری میں معتزلہ متکلمین پہلی بار تاریخ میں نمودار ہوئے اور انھوں نے اس اجماعِ امت کی خلاف ورزی کی۔حالانکہ اس سے پہلے عمرو بن عبید وغیرہ اعتزال کے ابتدائی قائدین وغیرہ حضرت حسنؒ بصری کی روایتوں کو دین سمجھ کر قبول کیا کرتے تھے اور ان کے مطابق فتوے دیتے تھے۔ یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس سے بے حد کم علم رکھنے والا شخص بھی ناواقف نہیں رہ سکتا ہے۔‘‘(الإحکام، ابن حزمؒ:۱/۱۱۰۔ الاعتصام، شاطبیؒ:۱/۱۸۷)
امام حازمیؒ نے روایت میں عدد کی شرط کے حوالے سے متاخرین معتزلہ کے نام گنائے ہیں اور بتایا ہے کہ یہ لوگ روایت کو شہادت پر قیاس کرتے تھے۔یہی رائے انھوں نے بعض محدثین کی نسبت سے بھی نقل کی ہے جیسا کہ امام سیوطیؒ نے بیان کیا ہے۔(تدریب الراوی:۱/ ۷۰)
مگر محدثین کی نسبت سے اس قول کے بارے میں علامہ ابن حجرؒ فرماتے ہیں:’’بعض لوگوں نے اس شرط کے التزام کی بات امام حاکمؒ نیساپوری کے کلام سے سمجھی ہے جو انھوں نے اپنی کتابوں ’’معرفۃ علوم الحدیث‘‘ اور ’’المدخل إلی الإکلیل‘‘ میں اس جگہ رقم کیا ہے جہاں امام بخاریؒ اور امام مسلمؒ کی شرائطِ قبول پر گفتگو ملتی ہے۔ابن الاثیرؒ نے ’’جامع الأصول‘‘ کے مقدمے میں پختہ لب ولہجے میں یہی بات لکھی ہے، حالانکہ یہ تمامتر ان لوگوں کی غلط فہمی ہے اور اس کے ردّ میں صحیحین میں درج وہ تمام حدیثیں پیش کی جاسکتی ہیں جو صحیح وثابت شدہ ہیں، حالانکہ غریب یعنی اخبارِ آحاد ہیں اور بعض ایسی خبریں ہیں جو ایک یا دو راویوں کے علاوہ کسی نے روایت نہیں کی ہیں۔‘‘(تدریب الراوی:۱/۷۱، ۱۲۴-۱۲۷)
علامہ ابن حجرؒ دوسرے موقع پر فرماتے ہیں: ’’بعض لوگوں کو وہم ہوا ہے اور انھوں نے امام حاکمؒ کی نسبت سے یہ دعویٰ کر دیا ہے کہ شیخین نے قبولِ روایت کے لیے دو راویوں کی شرط لگائی تھی، مگر یہ امام حاکمؒ کی نسبت سے غلط دعویٰ پیش کیا گیا ہے۔‘‘(فتح الباری:۱۳/۲۴۶۔ سؤالات مسعود بن علی السجزی للحاکم:ص۲۰۹)
خبرِ واحد کے بارے میں بھی معتزلہ کاموقف سراسر تناقض اور انکار پر مبنی ہے۔ اخبارِ آحاد کی حجیت کو لے کر ان کے درمیان کافی اختلاف ہوا ہے۔ امام آمدیؒ نے ابوالحسین بصری معتزلی کی نسبت سے نقل کیا ہے کہ عقلاً خبرِ واحد میں درج ہرحکم کو عبادت سمجھا جاسکتا ہے۔ (الإحکام، آمدیؒ:۲/۶۸،۷۵۔ المعتمد فی اصول الفقہ:۲/۱۰۶)
امام الحرمین جوینیؒ نے بعض معتزلہ اور شیعہ روافض کا موقف بیان کیا ہے کہ شرعاً اخبارِ آحاد پر عمل کرنا جائز نہیں ہے۔(البرہان فی اصول الفقہ:۱/۲۲۸،۲۳۱۔ المسودۃ فی اصول الفقہ:ص۲۳۸۔ المعتمد فی اصول الفقہ:۲/۱۰۶۔ فضل الاعتزال:ص۱۹۵)
امام ابومنصور بغدادیؒ نے خیاط معتزلی کے بارے میں بتایا ہے کہ وہ تقدیر کے مسئلے میں اور معدومات کی ایجاد وتخلیق کے مسئلے میں کفریہ روش اختیار کرنے کے علاوہ اخبارِ آحاد کی حجیت کا منکر بھی تھا۔علامہ بغدادیؒ فرماتے ہیں:’’وہ اپنے ردّ وانکار کے ذریعے سے شریعت کے بیشتر احکامات کی نفی کر دینا چاہتا تھا کیونکہ فقہی فرائض وواجبات زیادہ تر اخبارِ آحاد پر مبنی اور انہی سے مستفاد ہیں۔‘‘(الفرق بین الفرق:ص۱۶۸۔ الملل والنحل:۱/۶۶)
خبرِ واحد کے سلسلے میں معتزلہ کی آراء مختلف رہی ہیں۔ کس قدر راویوں کی روایت کو خبرِ واحد مان کر ردّ کیا جاسکتا ہے۔ تو اس حوالے سے معتزلہ نے اعمال سے متعلق اخبارِ آحاد کو قابلِ احتجاج ماننے کے لیے اپنی عقل سے کچھ شرطیں تجویز کر دی ہیں۔ابو علی الجبائی معتزلی سے نقل کیا جاتا ہے کہ خبر کے قابلِ قبول ہونے کے لیے ضروری ہے کہ اسے کم از کم چار راوی نقل کریں۔(تدریب الراوی:۱/۷۲) مگر جبائی سے یہ بھی نقل ہوا ہے کہ شرعیات میں دو راویوں سے کم کی روایت قبول نہیں کی جائے گی۔(البرہان، جوینیؒ:۱/۲۳۱) پھر یہ بھی اسی کا قول ہے کہ زنا کی گواہی میں جس قدر گواہوں کی شرط ہے، اس سے زیادہ تعداد ہونی چاہیے۔(المسودۃ فی اصول الفقہ:ص۲۳۶-۲۳۸)
محدثین میں سے اسماعیلؒ بن ابراہیم بن علیہ محدث نے بھی ہر طبقے میں دو راویوں کی شرط رکھی ہے، مگر ائمۂ محدثین میں سے کسی نے بھی ان کی بات کا اعتبار نہیں کیا کیونکہ ان کے بارے میں مشہور تھا کہ وہ مائل بہ اعتزال ہیں۔امام شافعیؒ اپنے زمانے میں ان کی تردید فرماتے تھے اور تلامذہ ومستفیدین کو ان کے نظریات سے گریز کی تلقین کرتے تھے۔
امام بغدادیؒ نے ذکر کیا ہے:’’بعض معتزلہ نے قبولِ خبر کے لیے ہر طبقے میں تین راویوں کی شرط رکھی ہے۔ بعض نے چار کی، بعض نے پانچ کی اور بعض نے سات راویوں کی قید لگائی ہے۔‘‘(تدریب الراوی:۱/ ۷۵۔ آراء المعتزلۃ الاصولیۃ دراسۃ وتقویما، علی بن سعد:ص۳۳۳)
کاروبارِ زندگی یا عملی مسائل میں خبرِ واحد سے استدلال کی صحت کے لیے ان میں سے کچھ لوگوں نے چند شرطیں لگائی ہیں۔مثلاً پہلی شرط یہ لگائی گئی ہے کہ خبرِ واحد قرآن کے ظاہری مفہوم سے نہ ٹکراتی ہو۔ ان کا یہ اصول پیچھے بھی گزر چکا ہے۔ان کی دانست میں اگر کوئی حدیث قرآن سے ٹکرائے گی تو چاہے اس ظاہری تعارض کو دور کرنے کی ہزار شکلیں ملیں، وہ حدیث ضرور ردّ کر دی جائے گی۔
مگر سوال یہ ہے کہ آخر کون یہ فیصلہ کرے گا کہ فلاں حدیث فلاں آیت سے ٹکرا رہی ہے۔اس کا جواب یہی ہو سکتا ہے کہ خود قاری اپنے فہم اورمطالعے کی روشنی میں یہ فیصلہ کرے گااور یہ فہم ومطالعہ اور اس کی بنیاد پر ہونے والا فیصلہ بہرحال ایک انسانی کوشش ہوگی۔ خواہ وہ انسان کتنا ہی بڑا عالمِ قرآن اور عالمِ شریعت ہو، وہ بہرحال معصوم عن الخطانہیں ہوگا۔
اہلِ سنت والجماعت کا موقف یہ ہے کہ یہ فہم اور فیصلہ اور اس کے نتیجے میں وجود پذیر تفسیر قابلِ قبول اسی وقت ہوگی جب وہ حدیث اورسنت کے موافق ہو۔یقینا قرآن کو حدیث اورسنت پر بالاتری اور ترجیح حاصل ہے، مگر کسی انسانی فہم ومطالعے اور انسانی تفسیر کو یہ ترجیح اور فوقیت حاصل نہیں ہو سکتی۔اس لیے قرآن کو بالادست ماننے ہی کا تقاضا ہے کہ قرآنِ پاک کی ایسی تفسیر ردّ کر دی جائے جو متعلقہ آیت کی بیان کردہ تفسیرِ نبوی کے خلاف ہو۔ بعض محدثین نے اس سیاق میں اور غالباً اسی پسِ منظر میں یہ بات کہی ہے کہ سنت کا فیصلہ قرآن پر نافذ ہوگا۔ [السنۃ قاضیۃٌ علی الکتاب](الکفایۃ فی علم الروایۃ:ص۱۴)
قرآن کے مدلول اور معنی کی تعیین سنت کرتی ہے اور یہ تعیین حتمی اور واجب التسلیم ہوتی ہے۔سنت کی اس تشریح وتبیین کے خلاف کسی مسلمان کو کچھ کہنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ امام شافعیؒ، خطیب بغدادیؒ اور علامہ ابن عبدالبرؒ نے یہی موقف اختیار کیا ہے۔(الرسالۃ:ص۱۰۰۔ جامع بیان العلم وفضلہ:۲/۱۹۱))
شاہ ولیؒ اللہ محدث دہلوی بھی یہی توجیہ فرماتے ہیں کہ اگر قرآن کے مفہوم میں مختلف احتمالات ہوں تو معنیٔ مراد کی تعیین سنت سے ہوگی۔[وإذا کان القرآن محتملا لوجوہ فالسنۃ قاضیۃ علیہ](الانصاف فی بیان سبب الاختلاف:ص۲۶)
امام احمدؒ بن حنبل نے اس تعبیر کو البتہ پسند نہیں فرمایا ہے اور اسے ایک گونہ جسارت قرار دیا ہے، تاہم وہ بھی اسی مفہوم کے قائل اور حامل ہیں۔ وہ فرماتے ہیں:’’میں یہ بات کہنے کی ہمت تو نہیں کرتا، مگر اتنا ضرور ہے کہ سنت کی روشنی میں اللہ کی کتاب کی تفسیر وتبیین ہوتی ہے۔‘‘[ماأجسر علی ہذا أن أقولہ ولکن السنۃ تفسّر الکتاب وتعرّف الکتاب وتبیّنہ](الکفایۃ فی علم الروایۃ: ص۱۵)
دیکھا جائے تو زیادہ ترگمراہ فرقوں اور بدعتی طائفوں -جیسے خوارج، جہمیہ، جبریہ، معتزلہ وغیرہ-نے عدمِ تعارض کی اس شرط کو اپنے مسلک میں اصولی اور جوہری حیثیت دی ہے جیسا کہ ان کی نسبت سے امام ابن القیمؒ، امام شاطبیؒ اور امام ابن قتیبہؒ نے بیان کیا ہے۔(إعلام الموقعین:۲/ ۲۷۵-۲۷۶۔ الاعتصام، باب فی مأخذ اہل البدع بالاستدلال:۱/۱۹۹۔ تاویل مختلف الحدیث: ص۸۴۔ الخلافۃ ونشأۃ الأحزاب الإسلامیۃ:ص۲۱۰-۲۱۲)
بعض معتزلہ نے یہ شرط بھی رکھی ہے کہ خبرِ واحد عقل کے مخالف نہ ہو۔ابو الحسین معتزلی کہتے ہیں: ’’مقتضائے عقل کے خلاف کسی خبر کا ظاہری معنی قبول نہیں کیا جائے گا کیونکہ ہم مطلقاً اپنی عقل کی روسے جان چکے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کسی بندے کو “مالایطاق” (Unbearable) کاموں کا مکلف نہیں بناتا ہے اور اس کا ایسا کرنا قبیح اور غیر متصور ہے۔اب اگر عقل کے خلاف کسی حدیث کو قبول کر لیاجائے تو اس کی دو صورتیں ممکن ہیں، یا تو ہم یہ سمجھیں کہ اللہ کے نبیﷺ سچے تھے، ایسے میں اجتماعِ ضدین لازم آتا ہے۔ ایک سچائی نبیؐ کی اور دوسری سچائی ہماری عقل کی۔ دوسری صورت یہ ہے کہ ہم نبی ﷺ کو سچا نہ مانیں،مگر ایسے میں ہم اس شخص کی بات ماننے سے عدول کریں گے جس کی حقانیت وصداقت اعجازی طور پر ثابت شدہ ہے۔ یہ دونوں صورتیں محال ہیں، اس لیے ایسی حدیث کو ہی سرے سے قبول نہیں کیا جائے گا۔‘‘(المعتمد فی اصول الفقہ:۲/۵۴۹۔ شرح الاصول الخمسۃ:ص۵۶۵)
معتزلہ کی ایک جماعت کا موقف ہے کہ اخبارِ آحاد کو عقائد وایمانیات کے باب میں قبول نہیں کیا جائے گا کیونکہ عقیدے کا مبنی بر یقین ہونا ضروری ہے جب کہ خبرِ واحد سے محض افادۂ ظن ہوتا ہے۔(المعتمد فی اصول الفقہ:۲/۱۰۲۔ شرح الاصول الخمسۃ:ص۷۶۹)
پھر یقین کہاں سے حاصل ہوگا؟ اس بارے میں معتزلہ کا کہنا ہے کہ وہ عقلی دلائل سے حاصل ہوتا ہے جیسا کہ جاحظ معتزلی نے لکھا ہے کہ قطعی حکم صرف ذہن کا حق ہے اور صحیح تحقیق وتفتیش صرف عقل کرتی ہے۔[وما الحکم القاطع إلا للذہن وما الاستبانۃ الصحیحۃ إلا للعقل](رسالۃ التربیع والتدویر، رسائل الجاحظ:۳/۵۸)
بہ قولِ جاحظ یہ عقلی استنباط ہی ہے جو آدمی کو یقین کی ٹھنڈک، اعتماد کی عزت، صحیح صورتِ مسئلہ کی تشخیص اور لائقِ تعریف فیصلے تک پہنچاتا ہے۔ [والاستنباط ہو الذی یفضی بصاحبہ إلی برد الیقین وعز الثقۃ والقضیۃ الصحیحۃ والحکم المحمود](کتاب المعلمین، رسائل الجاحظ:۳/۱۲۳)
قاضی عبدالجبار معتزلی فرماتے ہیں:’’اگر اخبارِ آحاد سے معلوم ہونے والی بات کا تعلق عقائد سے ہے تو اس میں غور کیا جائے گا،اگر وہ دلائلِ عقلیہ کے مطابق ہے تو قابلِ قبول ہوگی اور اس کے بہ موجب اعتقاد رکھا جائے گا، اس لیے نہیں کہ فلاں بات خبرِ واحد سے ثابت ہوگئی ہے، بلکہ اس لیے کہ عقلی دلیل اس کی تائید کرتی ہے۔ اور اگر وہ دلائلِ عقلیہ کے مطابق نہ ہو تو ضروری ہے کہ اسے ردّ کر دیا جائے اور مانا جائے کہ اللہ کے نبیﷺ نے اسے نہیں فرمایا ہوگا، اور اگر کہا ہوگا تو کسی دوسرے کی بات نقل کی ہوگی جسے سننے والوں نے ارشادِ نبوی سمجھ لیا۔ یہ تب ہے جب کہ ہمیں اس کی تاویل کرنے میں شدید تکلف سے کام لینا پڑے، ورنہ اگر اس میں تاویل کا احتمال ہے تو فی الفور اس کی تاویل کرنا واجب ہے۔‘‘[وإن کان خبر الآحاد مما طریقہ الاعتقادات ینظر فإن کان موافقا لحجج العقول قبل واعتقد بموجبہ لا لمکانہ بل للحجۃ العقلیۃ وإن لم یکن موافقا لہا فإن الواجب أن یرد ویحکم بأن النبی ﷺ لم یقلہ وإن قالہ فإنما قالہ علی طریق الحکایۃ عن غیرہ ہذا إذا لم یحتمل التأویل إلا بتعسف فأما إذا احتملہ فالواجب أن یتأول](شرح الاصول الخمسۃ:ص ۷۷۰۔ فضل الاعتزال وطبقات المعتزلۃ:ص۱۸۲۔ المعتمد فی اصول الفقہ:۲/۵۴۹)
اخبارِ آحاد کے انکار میں یہ لوگ اس حد تک بڑھ گئے ہیں کہ بعض صحیح وثابت شدہ احادیث کے بارے میں ان کا تبصرہ ہے کہ انھیں نقل کرنے والوں نے گناہِ کبیرہ کا ارتکاب کیاہے کیونکہ ان کی دانست میں ان احادیث سے تشبیہ اور جبر وغیرہ عقائدِ باطلہ کا اثبات ہوتا ہے۔ اگر ایسی احادیث کے کسی جزئیے میں کوئی قابلِ عمل بات نہ ہو تو انھیں نقل کرنا ایک فضول کام ہے۔ (الانتصار:ص۱۵۲-۱۵۳)
ان شرطوں کا تنقیدی جائزہ آگے اس جگہ لیا جائے گا جہاں خبرِ واحد کی حجیت کا انکار کرنے والوں کے شبہات واعتراضات کا رد کرنا مقصود ہے۔
ذکی الرحمٰن غازی مدنی، جامعۃ الفلاح، اعظم گڑھ