جیسے ہی محرم الحرام کا آغاز ہوتا ہے، اہلسنت کا بیشتر طبقہ مثلِ روافض یزید پر تبرا پڑھنا شروع کردیتا ہے۔ حد تو اس وقت ہوتی ہے جب بعض حضرات پوری دیدہ درہنی سے غلط معلومات یزید کے نام پر سوشل میڈیا پر شئیر کرتے نظر آتے ہیں جس کی حالیہ مثال کچھ دنوں قبل رائیونڈ کے ایک فاضل کی طرف سے ۶۰ ہجری میں مکہ میں یزید کی بیعت نہ ہونے کے غیر حقیقی دعویٰ کے تحت دیکھنے کو ملی جبکہ ایک دوسرے صاحب نے واقعہ حرہ کے موقع پر مقتول ہونے والے صحابہ کی فہرست نشر کرتے ہوئے کمالِ ہشیاری سے جو صحابہؓ حرہ میں یزید کے حلیف تھے اور یزید کی طرف سے معرکہ میں شریک تھے، ان تک کو باغیوں کے بجائے یزید کی فوجوں کے ہاتھوں شہید ہونے والوں میں شامل کردیا۔
الغرض جھوٹ کا ایک بھنڈار ہے جو اس وقت بھانت بھانت کے مولویوں نے فیس بک پر یزید کے خلاف روافض کی ہمنوائی میں پھیلا رکھا ہے۔ سو اسی سبب مناسب سمجھا کہ یزید بن معاویہؓ سے متعلق اعتراضات کے تجزیہ پر کوئی کتاب قارئین کے ساتھ شئیر کردی جائے تاکہ ہر قسم کے دروغ گو حضرات کے جھوٹ ایک عام قاری پر خود ہی عیاں ہوجائیں۔
یزید بن معاویہؒ پر پچھلی چند دہائیوں میں کئی کتب لکھی گئیں لیکن ان میں سے بیشتر کتب کا موضوع واقعہ کربلا کا حادثہ رہا جس کے ذیل میں یزید بن معاویہؒ کا ذکر بھی آگیا۔ ابھی تک کوئی کتاب ایسی نہ لکھی گئی تھی جس میں تاریخ سے ہٹ کر محدثانہ طرز پر یزید بن معاویہؒ پر اعتراضات کا جائزہ لیا گیا ہو۔ فضیلۃ الشیخ کفایت اللہ سنابلی حفظہ اللہ کی کتاب “یزید بن معاویہ پر الزامات کا تحقیقی جائزہ” کو بلاشبہ اس سلسلے کی پہلی مفصل و مدلل کاوش کہا جاسکتا ہے۔ اس کتاب کی علمی وثاقت کے لئے یہی بات کافی ہے کہ نامور اہلحدیث عالم فضیلۃ الشیخ حافظ صلاح الدین یوسف حفظہ اللہ نے اس کتاب پر تقدیم رقم کی اور اس کے مندرجات کو اپنی تائید سے نوازا۔
ابو الفوزان کفایت اللہ سنابلی حفظہ اللہ کی یہ کتاب ۹۱۳ صفحات پر مشتمل ہے جس میں یزید بن معاویہؒ پر عائد کردہ تقریباً ہر الزام کا جواب دیا گیا ہے۔ سنابلی صاحب کتاب کا آغاز عرضِ مؤلف کے بعد “یزید بن معاویہؒ کا دفاع کیوں؟” کی سرخی قائم کرکے کرتے ہیں جس میں وہ ان وجوہات کا تفصیلی ذکر کرتے ہیں جن کے تحت انہوں نے امیر یزید بن معاویہؒ کے دفاع پر کتاب لکھنے کا سوچا۔ ان وجوہات میں اول وجہ تو وہ حدیثِ رسولﷺ ہے جس میں آپﷺ نے فرمایا کہ جو شخص اپنے بھائی کی عزت سے اس چیز کو دور کریگا جو اسے عیب دار بناتی ہے تو اللہ تعالیٰ روزِ قیامت اس کے چہرے سے جہنم کی آگ کو دور کریگا۔
سو جب درست تاریخی حقائق سے یہ بات ثابت ہوجاتی ہے کہ امیر یزید بن معاویہؒ ایک نیک و صالح خلیفہ تھے اور ان کا قتلِ حسینؓ میں کوئی ہاتھ نہ تھا تو پھر ایک مومن ہونے کے ناطے ہم پر یہ فرضِ کفایہ ہے کہ شیعی پروپیگنڈے کے زیرِ اثر امیر یزید ؒ پر لگے غیر ثابت اعتراضات کو علمی دلائل کی روشنی میں رفع کریں۔ امیر یزیدؒ کا تعلق خیر القرون کے دور سے تھا جس کی بابت آپﷺ نے بہترین دور ہونے کی نشاندہی کی ہے اور ساتھ وہ ایک صحابی کے بیٹے اور کئی جلیل القدر اصحابِ رسولﷺ کے بیعت کردہ خلیفہ تھے، سو ان کے اوپر فسق کی تہمت و دیگر اعتراضات لامحالہ سیدنا معاویہؓ اور ان ڈھائی سو صحابہ کرام کی طرف بھی لوٹتے ہیں جنہوں نے امیر یزید بن معاویہؒ کی حکومت پر اعتبار کرتے ہوئے ان کو اپنا خلیفہ مانا۔ سو اس تناظر میں بھی یہ ضروری ہوجاتا ہے کہ امیریزید بن معاویہؒ پر عائد الزامات کا بھرپور جائزہ لیا جائے اور کوئی بھی ہلکی و غیر ثابت شدہ بات ان کی بابت قبول نہ کی جائے۔
صفحہ ۳۶ سے کفایت اللہ سنابلی صاحب “موضوع اور من گھڑت روایات اور صحیح احادیث سے غلط استدلال” کی سرخی قائم کرکے امیر یزید بن معاویہؒ سے متعلق کئی وضعی اور ضعیف روایات پر نہایت عمدہ محدثانہ بحث کرکے ان کا غیر صحیح ہونا ثابت کرتے ہیں۔ اس سلسلے میں سب سے اول کلام وہ اس روایت پر کرتے ہیں جس میں مذکور ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا کہ میری امت میں اول بگاڑ بنو امیہ کے ایک شخص بنام یزید کی وجہ سے آئیگا۔ اس روایت پر مفصل کلام کرنے کے بعد سنابلی صاحب دیگر روایات پر بھی اسی طور کا کلام کرتے ہوئے اصولِ محدثین کی روشنی میں ان کا وضعی ہونا ثابت کرتے ہیں۔
انہیں تفاصیل کے ذیل میں سنابلی صاحب ان مذاکروں کو بھی رقم کرتے ہیں جو کہ تعدیلِ یزید کی بابت ان کے اور محدث حافظ زبیر علی زئی مرحوم کے درمیان وقوع پذیر ہوئے تھے۔ یہ مذاکرے اپنے اندر نہایت وقیع علمی معلومات رکھتے ہیں تاہم ایک عامی کے لیے شاید یہ زیادہ دلچسپی کا موضوع نہ بن سکیں کیونکہ ان کی نوعیت نہایت علمی اور محدثانہ مبحث کی ہے البتہ علم الحدیث کے طلباء کے لیے ان مذاکروں میں سیکھنے کو بہت کچھ موجود ہے اور درحقیقت یہ مذاکرے علم و اصول الحدیث پر نہایت بصیرت افروز معلومات فراہم کرتے ہیں۔
صفحہ ۲۶۱ سے فصل دوم کے ذیل میں “صحیح احادیث سے غلط استدلال” کی سرخی قائم کرکے سنابلی صاحب صحیحین کی ان روایات پر تبصرہ فرماتے ہیں جن کے تحت یزید مخالفین امیر یزید کی ذات کو مطعون کرتے ہیں۔ ان روایات میں اوّل روایت جس پر سنابلی حفظہ اللہ کلام کرتے ہیں وہ صحیح بخاری کی صبیانِ قریش والی روایت ہے جس میں مذکور ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا کہ میری امت کی بربادی قریش کے چند لڑکوں کے ہاتھوں ہوگی۔ معترضین اس روایت کو امیر یزید پر محمول کرتے ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ روایت کے متن میں ایسی کوئی علامت موجود نہیں جس سے اس روایت کو یزید بن معاویہؒ پر منطبق کیا جاسکے جبکہ صحیح بخاری میں دوسری جگہ جب یہ روایت آتی ہے تو اس سے صراحت ہوجاتی ہے کہ اس روایت میں جن لڑکوں کا ذکر ہوا ہے وہ یزید کے دورکے بعد کے ہیں۔
المختصر کفایت اللہ سنابلی حفظہ اللہ نے اس روایت پر نہایت وقیع بحث کرکے ثابت کردیا ہے کہ اس روایت کا تعلق نہ ہی تو امیر یزید بن معاویہؒ سے ہے اور نہ ہی ان کے دورِ اقتدار سے۔ ہمارے خیال میں محدثِ احناف حبیب الرحمٰن الاعظمی کے بعد سنابلی صاحب وہ واحد شخص ہیں جنہوں نے اس عمدہ طریقے سے اس روایت کی اصل تشریح و توضیح کی ہے۔ آگے جاکر صفحہ ۲۸۰ پر “بعض آثارِ صحابہؓ سے غلط استدلال” کی سرخی قائم کرکے سنابلی صاحب ان تمام آثار پر عمدہ کلام کرتے ہیں جن سے غلط طور سے استدلال کرکے معترضین یزید بن معاویہؒ کو مطعون کرنے کی ناکام سعی فرماتے ہیں۔
صفحہ ۳۰۲ پر باب سوم کے ذیل میں “امیر یزید کی بیعت سے بعض صحابہ کا اختلاف اور اس کی نوعیت” کی سرخی قائم کرکے کفایت اللہ سنابلی صاحب مدلل تاریخی حقائق اور احادیث کی روشنی میں یہ ثابت کرتے ہیں کہ امیر یزید کی بیعت سے صرف دو صحابہؓ نے ہی اختلاف کیا تھا اور ان دوکا اختلاف بھی امیر یزید کی شخصیت یا ان کے غیر ثابت شدہ فسق کی وجہ سے نہیں بلکہ صرف طریقۂ ولی عہدی سے تھا۔ ساتھ ہی وہ “غیر ثابت مخالفتیں” کی سرخی قائم کرکے اس بابت بعض روایات کی قلعی کھول کر ان کا وضعی ہونا ثابت کرتے ہیں۔
صفحہ ۳۲۸ پر باپ چہارم کے ذیل میں وہ “شہادتِ حسینؓ ” کی سرخی قائم کرکے بدلائل یہ ثابت کرتے ہیں کہ سیدنا حسینؓ کے قاتل امیر یزید نہیں بلکہ اہلِ کوفہ تھے اور پھر مختلف تاریخی حقائق اور صحیح روایات کے ذیل میں اس بابت صحابہؓ کا مؤقف نقل کرتے ہیں کہ ہم عصر صحابہؓ نے قتلِ حسینؓ کی ذمہ داری امیر یزید یا شامی افواج پر ڈالنے کے بجائے اہلِ کوفہ پر عائد کی۔ ساتھ ہی سنابلی صاحب ان راویات پر بھی محدثانہ کلام کرتے ہیں جن کے تحت یہ ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ صحابہؓ امیر یزید کو قتلِ حسینؓ کا ذمہ دار سمجھتے تھے۔ اس مبحث میں سنابلی صاحب برادرِ حسین محمد بن علیؒ اور ابن حسینؓ علی بن حسینؒ کی شہادتیں بھی نقل کرتے ہیں جنہوں نے کوفیوں کو ہی اپنے بھائی اور والد کا قاتل قرار دیا۔ اس ضمن میں ان کے اور حافظ زبیر علی زئی مرحوم کے کچھ مذاکرے بھی وہ رقم کرتے ہیں۔
صفحہ ۳۶۸ میں باب پنجم کے ذیل میں “قاتلین حسینؓ سے عدم قصاص” کی سرخی کے تحت سنابلی صاحب نہایت تشفی و تسلی بخش گفتگو فرماکر ان تمام مطاعن کو رفع کرتے ہیں جن کے ذریعے یہ باور کروایا جاتا ہےکہ اگر یزید اتنا ہی نیک تھا تو اس نے سیدنا حسینؓ کا قصاص کیوں نہ لیا۔ اس باب میں راسِ حسینؓ سے متعلق روایات بھی زیرِ بحث آئی ہیں جن کی نہایت عمدہ اور مدلل توجیہ کفایت اللہ سنابلی صاحب نے پیش کی ہے۔ صفحہ ۴۱۶ پر باب ششم کے ذیل میں “واقعہ حرہ کی حقیقت” کی سرخی قائم کرکے کفایت اللہ سنابلی حفظہ اللہ نے واقعہ حرہ سے متعلق نہایت درست اور صائب معلومات بہم پہنچائی ہے اور حقیقت یہ ہے کہ یہ وہ باب ہے جہاں قاری کفایت اللہ سنابلی حفظہ اللہ کی علمیت، زورِ استدلال اور علم الحدیث و تاریخ پر ان کی گرفت کا معترف ہوئے بغیر نہیں رہ پاتا۔
صفحہ ۴۸۶ میں باب ہفتم کے ذیل میں “حصارِ مکہ” کی سرخی قائم کرکے سنابلی صاحب پس منظر سے شروعات کرکے خانہ کعبہ پر آگ برسانے سے لیکر غلافِ کعبہ کے جل جانے تک ہر موضوع پر نہایت تفصلی ادلہ مہیا کرتے ہیں اور اس سلسلے میں کم از کم دس روایات پر علم الحدیث کی روشنی میں عمدہ مقدمہ قائم کرکے ثابت کرتے ہیں کہ حصارِ مکہ کی بابت امیر یزید کا اقدام عین شریعت کے مطابق تھا اور اس بابت ان سے کسی قسم کی بے اعتدالی کا ثبوت کسی صحیح تاریخی روایت سے ثابت نہیں۔ صفحہ ۵۵۸ پر باب ہشتم کے ذیل میں “یزید کے اخلاق و کردار” کی سرخی قائم کرتے ہوئے سنابلی حفظہ اللہ امیر یزید کے سیرت و اخلاق سے متعلق معلومات قارئین کو پہنچاتے ہیں۔ جس میں اوّل الذکر بارہ خلفاء کی حدیث کو نقل کرتے ہیں جن کی بابت نبی ﷺ نے فرمایا کہ اسلام ان کے دور میں مامون و غالب رہیگا اور پھر ساتھ ہی محدثین کی تصریحات سے ثابت کرتے ہیں کہ شارحینِ حدیث نے امیر یزید بن معاویہؒ کو ان بارہ خلفاء میں سے ایک قرار دیا ہے۔
اس کے بعد وہ حدیثِ قسطنطنیہ کا ذکر کرتے ہیں جس کے مغفور لہم ہونے کی گواہی زبانِ رسالت ﷺنے دی ہے اور امیر یزید اس کے سپہ سالار ہونے کی حیثیت سے اس بشارت کے اولین مستحق قرار پاتے ہیں۔ ساتھ ہی وہ ان تمام شبہات کا بھی ابطال کرتے ہیں جو کہ صدیوں بعد مخالفین یزید کی طرف سے اس بابت عائد کیے جاتے ہیں جن کے تحت یہ باور کروانے کی سعی کی جاتی ہے کہ امیر یزید اس اولین لشکر میں شامل نہیں تھے۔ تاہم کفایت اللہ سنابلی حفظہ اللہ نے اس متعلق دلائل کے اس قدر انبار لگادئیے ہیں کہ کوئی معتدل مزاج و حق پرست شخص ان دلائل کے مطالعہ کے بعد اس حقیقت سے انکار نہیں کرسکتا کہ قسطنطنیہ پر حملہ آور ہونے والے پہلے لشکر کی سپہ سالاری امیر یزید بن معاویہؒ کے ہاتھوں میں ہی تھی۔ اس کے بعد سنابلی حفظہ اللہ ایسی صحیح السند روایات کا بھی ذکر کرتے ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ خود سیدنا حسینؓ نے امیر یزید کے لئے “امیر المومنین” کے الفاظ استعمال فرمائے تھے اور ان روایات کی بابت معترضین کے تمام اشکالات کا بدلائل جواب دیتے ہیں۔
صفحہ نمبر ۷۴۶ پر سنابلی صاحب “یزید بن معاویہ جرح و تعدیل کی میزان میں” کی سرخی قائم کرکےاس مشہور اعتراض پر بات کرتے ہیں جو کہ عموماً ان پر یہ کہہ کر عائد کیا جاتا ہے کہ امیر یزید بن معاویہؒ پر محدثین نے جرح کی ہے۔ یہ مقام بھی ان بہت سے مقامات میں سے ایک ہے جہاں کفایت اللہ سنابلی حفظہ اللہ کا علم الحدیث میں درک نکھر کر سامنے آتا ہے۔ اس سرخی کے تحت وہ ان تمام جروحات کا جواب دیدیتے ہیں جو کہ غیر معاصر محدثین نے امیر یزید بن معاویہؒ پر کی ہیں اور ساتھ ہی یزید بن معاویہؒ سے مروی چند صحیح روایات بھی ہدیۂ قارئین کرتے ہیں۔
صفحہ ۷۷۰ پر باب دہم کے ذیل میں “اہل علم کے اقوال و تبصرے” کی سرخی قائم کرکے یزید بن معاویہ سے متعلق موافق و مخالف اقوالِ علماء نقل فرماتے ہیں اور ہر دو طرح کے اقوال پر کلام کرتے ہوئے ان کی اصل توضیحات قارئین کے سامنے رکھتے ہیں۔ اس باب میں سنابلی صاحب امام احمد بن حنبل، امام ابن الجوزی، امام عبدالمغیث حنبلی، امام ابن تیمیہ، امام ذہبی، امام ابن کثیر، امام لیث بن سعد ، امام مہلب بن احمد اسدی، قاضی ابو بکر ابن العربی مالکی، حافظ عبدالغنی مقدسی حنبلی وغیرہم کے اقوال نقل کرنے کے ساتھ ساتھ ان پر تبصرہ کرتے جاتے ہیں۔ تاہم علامہ ابن تیمیہ سے متعلق کفایت اللہ سنابلی صاحب کا کلام سب سے عمدہ اور مدلل ہے جہاں علامہ ابن تیمیہ کے یزید کی بابت مؤقف کو لیکر جو غلط رائے یزید متعرضین عوام میں پھیلا رہے ہیں، اسکا نہایت عمدہ ابطال کرکے شیخ الاسلام کا اصل مقصود پیش کیا گیا ہے۔
صفحہ ۸۴۶ میں ضمیمہ کے ذیل میں “حادثہ کربلا” کی سرخی قائم کرکے کفایت اللہ سنابلی حفظہ اللہ نے حادثہ کربلا سے متعلق نہایت جامع اور مفصل بحث کی ہے اور اپنے تئیں واقعہ کربلا سے متعلق اصل واقعات ہدیۂ قارئین کئے ہیں۔ المختصر فضیلۃ الشیخ کفایت اللہ سنابلی حفظہ اللہ کی یہ کتاب امیر یزید بن معاویہ ؒ پر الزامات و اعتراضات سے متعلق ایک موسوعۃ ہے، جو کہ اردو زبان میں اتنی تفصیل کے ساتھ شائد ہی پہلے کبھی مرتب کیا گیا ہو۔ امید ہے کہ اس کتاب کے مطالعہ کے بعد امیریزید بن معاویہؒ سے متعلق قارئین کے کئی اشکالات رفع ہوجائینگے۔
محمد فھد حارث