ضرورت تھی ایک ایسی کاوش کی جس کے ذریعے مدارس کے نو نہال طلباء یا اس میدان میں کام کرنے والے خدام دین جب میدان عمل میں آئیں تو ان کی خاطر یہ راہ بڑی آسان معلوم ہو ، اور فریضہ دعوت کو بآسانی انسانیت تک پہنچایا جا سکے
اِس کتاب کا نام ایسا ہے کہ اس کے نام ہی سے دل چسپی پیدا ہوتی ہے, دراصل اِس رُخ پر لازماً سوچنے کا تقاضا آج کے حالات کرتے ہیں, آج عالمی اور ملکی دونوں سطح پر اسلام بہت زیادہ زیرِ بحث ہے.
جو لوگ اسلام کو تسلیم نہیں کرتے وہ چاہے مطلقاً ہر مذہب کے انکاری ہوں, یا محض اسلام سے حسد و مخالفت رکھتے ہوں یا پھر بعض اپنے ہی مسلم بھائی ہوں جو حالات سے متاثر ہو کر اسلام یا اُس کی بعض تعلیمات کے تعلق سے شکوک و شبہات کا شکار ہیں.
اِیسے لوگوں کے اعتراضات بظاہر بڑے عجیب ہوتے ہیں, جسے سُن کر عموماً ہمیں غصہ زیادہ آتا ہے, لیکن یہ وقت غصے کا نہیں, تحمل اور سنجیدگی سے جواب دینے کا ہے, لاجواب کر دینے کا ہے, ایسے لوگوں سے کس لہجہ میں گفتگو کی جائے یہ بہت اہم ہے.
ہماری گفتگو کن اصولوں کے تحت ہو, کس طرزِ استدلال اور طریقۂ تخاطب کے ساتھ ہو, جس سے سامنے والا متاثر ہو اور ہم اُس پر علمی و نفسیاتی طور پر غالب رہیں, یا کم از کم ہم تحمل برتیں, بھڑکیں نہیں, بدخُلقی اور بد زبانی پر نہ اُتریں.
یہ کتاب جیسا کہ نام سے ظاہر ہے اِنہیں سب باتوں پر روشنی ڈالتی ہے, یہ آج کے سخت مشکل حالات میں دعوتی اسلوب کو بتاتی ہے, اور یہ چیزیں صرف اُنہیں لوگوں کے لیے ضروری نہیں جو مسلسل دعوتِ دین کے لیے وقف ہیں بلکہ پر ہم سب کو ضرورت ہے