مولانا سید مناظر احسن گیلانی (۱۸۹۲ء۔ ۱۹۵۶ء) ہندوستان کے ممتاز عالم ودانشور، عظیم مصنف ، بلند پایہ محقق ،اعلیٰ درجہ کے خطیب اور قدیم وجدید علوم کے جامع تھے، ابتدائی تعلیم اپنے وطن گیلانی میں حاصل کرکے راجپوتانہ کی ریاست ٹونک پہنچے ، جہاں خیرآبادی سلسلہ کے نامور استاذ مولاناحکیم برکات احمد ٹونکی کی خدمت میں سات سال رہ کر منطق وفلسفہ کی انتہائی کتابیں انتہائی دقت وعرق ریزی کے ساتھ پڑھیں ، اور اس فن میں کمال حاصل کیا ۔ یہاں سے شوال ۱۳۳۱ھ (ستمبر ۱۹۱۳ء ) میں دارالعلوم دیوبند میں دورۂ حدیث میں داخل ہوئے اور شعبان ۱۳۳۲ ھ( جولائی ۱۹۱۴ء) میں فارغ ہوئے ۔اس کے بعد ایک سال تک ریاست ٹونک وحیدرآباد میں رہے۔ ذی الحجہ ۱۳۳۳ھ( اکتوبر ۱۹۱۵ء) میں دارالعلوم دیوبند آگئے ۔دیوبند میں ان کے قیام کی مدت تقریباً چار سال ہے ، یہاں انھوں نے تدریسی خدمات بھی انجام دیں ، القاسم والرشید کی ادارت وترتیب بھی ان سے متعلق رہی اوربوقت ضرورت وعظ وتبلیغ کے فرائض بھی انجام دئے۔ اس عرصہ میں چھ ماہ کے قریب وہ مونگیر میں بھی رہے۔ کلکتہ کے ایک سفر سے واپسی میں ذی الحجہ ۱۳۳۷ھ (ستمبر۱۹۱۹ء ) میں عید الاضحی کی وجہ سے ایک روز کے لئے حیدرآباد میں رک گئے ، اس وقت عثمانیہ یونیورسٹی قائم ہورہی تھی ۔ اساتذہ کی پہلی کھیپ میں یہ بھی شامل کرلئے گئے اور ۳۰؍ سال بعد صدر شعبہ دینیات کے عہدہ سے وظیفہ یاب ہوکر اپنے وطن گیلانی لوٹے۔اور یہیں جون ۱۹۵۶ء میں اپنے مالک حقیقی سے جاملے۔رحمہ اللہ رحمۃً واسعۃً
’’ علامہ سید مناظر احسن گیلانیؒ : احوال وآثار‘‘ ان مضامین ومقالات کا مجموعہ جو مولانا گیلانی کی سوانح وافکار اور ان کی دینی وعلمی اور ادبی خدمات پر لکھے گئے ہیں ۔ چار مرکزی عناوین کے تحت مقالات مرتب کئے گئے ہیں ۔ پہلا عنوان ’’ احوال ‘‘ ہے ، جس کے تحت ۱۶؍ مقالات ہیں ۔ لکھنےوالے سب آسمان علم وفضل کے آفتاب وماہتاب ہیں ۔ پہلا مضمون ڈاکٹر حمید اللہ حیدرآبادی کا ہے جو مولانا گیلانی کے سوانحی حالات پر ہے،یہ مولانا کی حیات میں ان کی کتاب ’’ امام ابوحنیفہ کی سیاسی زندگی ‘‘ کے لئے لکھا گیا تھا ۔دوسرا مضمون مولانا کے خاص شاگرد اور ان کی متعدد کتابوں کے مرتب ڈاکٹر غلام محمد حیدرآبادی کا ’’ تذکرۂ احسن ‘‘ ہے ،جو سوانحی حالات پر ہے ، اس میں انھوں نے مولانا کے قیام دیوبند کے تعلق سے دو باتیں لکھی ہیں اور دونوں از روئے تحقیق درست نہیں ہیں ۔ پہلی بات یہ کہ’’ دارالعلوم دیوبند سے دوسال میں سند فراغ حاصل فرمائی‘‘۔ جبکہ مولانا نے ’’ احاطۂ دارالعلوم میں بِیتے ہوئے دن ‘‘ میں صاف لکھا ہے کہ انھوں نے صرف ایک سال دیوبند میں پڑھا ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ فراغت کے بعد ’’شاید دو سال رہنے پائے تھے کہ جامعہ عثمانیہ نے ان کو اپنی طرف کھینچ لیا ۔‘‘ اس سلسلہ میں ابتداء میں مختصر سوانحی حالات میں لکھ چکا ہوں کہ قیام کی یہ مدت چار سال تھی ۔ فاضل مرتب کو اس پر نوٹ لکھنا چاہئے تھا ، اس لئے کہ اس سلسلہ میں جس مضمون نگار کو جیسی معلومات دستیاب ہوئیں تحریر کردیا ہے۔
اس باب کے سارے مضامین ہی بہت اہم ہیں ، لیکن اس میں سید صباح الدین عبدالرحمٰن ، پروفیسر مظفر گیلانی ، مولانا ابوالحسن علی ندوی ، حکیم سید محمود احمد برکاتی اور مفتی ظفیر الدین مفتاحی علیہم الرحمہ کے مضامین خاص اہمیت کے حامل ہیں۔
دوسرا عنوان ’’ افکار ‘‘ ہے ، اس میں ۸؍ مقالات ہیں ۔پہلا مقالہ مولانا گیلانی کے رفیق قدیم مولانا عبدالباری ندوی کا ہے ’’ بڑا نادر سنگم : دل ودماغ دونوں کا ‘‘ ۔مطالعۂ گیلانی میں اس مضمون کو خاص اہمیت حاصل ہے ۔ دوسرا مضمون ’’ مولانا گیلانی اور ان کا مطالعۂ ادیان ‘‘ ہے ، لکھنے والے سید عبد الغفار بخاری اور سعاد محمد عباس ہیں ، اول الذکر نیشنل یونیورسٹی آف ماڈرن لینگویجز اسلام آباد کے صدر شعبۂ علوم اسلامیہ ہیں ،اور ثانی الذکر اسی یونیورسٹی کی ریسرچ اسکالر ہیں ۔ دیگر مقالہ نگاروں میں مولانا محمد منظور نعمانی ، مولانا عتیق الرحمن سنبھلی، ڈاکٹر سعود عام قاسمی ، پروفیسر محسن عثمانی ، مولانا بدرالحسن قاسمی اور ڈاکٹر امان اللہ راٹھور ہیں ۔
تیسرا عنوان ’’ ادبیات ‘‘ ہے ، جس میں مولانا گیلانی کی مکتوب نگاری ، نثری اسلوب ، طرز انشا واسلوب تحریر اور شاعری کا جائزہ لیا گیا ہے ۔ مقالہ نگاروں میں ڈاکٹر امان اللہ راٹھور، مولانا فیصل احمد بھٹکلی ندوی ، ڈاکٹر ابرار احمد اجراوی قاسمی ، مولانا تنویر خالد قاسمی ، پروفیسر محسن عثمانی ندوی ،پروفیسر ابومنور گیلانی اور خود مرتب کتاب ڈاکٹر فاروق اعظم ہیں۔
آخری عنوان ’’علامہ سید مناظر احسن گیلانی، مشاہیر کی انجمن میں ‘‘ ہے ، جس میں مولانا سید حسین احمد مدنی ، مولانا قاری محمد طیب قاسمی ، علامہ سید سلیمان ندوی اور مفتی محمد شفیع دیوبندی کی مختصر تاثراتی تحریریں ہیں ۔ اخیر میں مولانا گیلانی کی ۲۷؍ مطبوعہ کتابوں کی فہرست دی گئی ہے۔
کتاب کے مرتب ڈاکٹر فاروق اعظم قاسمی کا تعلق ضلع کھگڑیا بہار سے ہے ، فی الحال وہ رام لکھن سنگھ یادو کالج بتیا مغربی چمپارن میں اسسٹنٹ پروفیسر ہیں ۔ انھوں نے ۲۰۰۷ء میں دارالعلوم دیوبند سے فضیلت کی تکمیل کی ،بی اے جامعہ ملیہ سے کیا ، ایم اے ، ایم فل اور پی ایچ ڈی جواہر لال نہرو یونیورسٹی دہلی سے کیا ، انھیں ۲۰۱۹ء میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری تفویض کی گئی ۔بہترین لکھنے والوں میں سے ہیں ، نصف درجن کتابوں کے مصنف ہیں ۔مضامین و مقالات بھی کئی درجن ہوں گے۔ اخیر کے چھ صفحات میں ان کی علمی وقلمی فتوحات کی تفصیل موجود ہے ۔ اس سے پہلے وہ مولانا گیلانی کے اشعار کو ’’ مناظر گیلانی ‘‘ کے نام سے مرتب کرکے علمی دنیا سے خراج تحسین حاصل کرچکے ہیں ۔
کتاب کا پیش لفظ معروف عالم وادیب مولانا بدرالحسن قاسمی کے قلم سے ہے۔ ابتداء میں مرتب کے قلم سے دو تحریریں ہیں ، جو بڑی اہمیت کی حامل ہیں ، ایک تو مقدمہ جس میں کتاب میں شامل مضامین کا عمدہ تعارف اور مولانا گیلانی پر ہونے والے دیگر علمی وتحقیقی کاموں کابھی تذکرہ ہے ۔ دوسری تحریر ’’ مطالعۂ گیلانی : چند ضروری باتیں ‘‘ اس میں مولانا سے متعلق بہت سی مشہورباتوں کی اصل حقیقت بیان کی گئی ہے۔ کتاب 562صفحات پر مشتمل ہے اور ابھی چند ماہ قبل (2022) میں شائع ہوئی ہے ۔ مولانا گیلانی کے سوانح وافکار سے دلچسپی رکھنے والوں کے لئے یہ ایک بیش بہا علمی تحفہ ہے۔
ضیاء الحق خیرآبادی
کتاب خریدیں
Allama Syed Manazir Ahsan Gilani Ahwal o Asar | علامہ سید مناظر احسن گیلانی احوال و آثار