امام خلیفہ نےاپنی کتاب کو سالنامے کی طرز پر مرتب کیا ہے اور طبقات نگاری میں سنین کو ملحوظِ خاطر رکھتے ہوئے واقعات بیان کیے ہیں۔ یہ کتاب نہایت جامع و مختصر تاریخی معلومات پر مشتمل ہے۔ امام خلیفہ ہر سال کی سرخی قائم کرکے اس سن کے تاریخی واقعات کو نہایت اختصار سے بیان کرکے آگے بڑھ جاتے ہیں۔ لیکن یہی امام خلیفہ ۳۵ ہجری کے واقعات میں شہادتِ عثمانؓ کے سلسلے میں اپنی روش کے برخلاف نہایت مفصل کلام کرتے ہوئے تاریخی روایات کا ڈھیر لگا دیتے ہیں اور اس سلسلے میں ایسی ایسی روایتیں مع سند نقل کرتے ہیں جو شاید ہی کسی دوسری تاریخ کی کتاب میں ملتی ہوں۔ یہ روایات سیدنا عثمانؓ پر لگے ہر الزام کا نہ صرف ابطال کرتی نظر آتی ہیں بلکہ واقعہ مذکورہ کی نہایت درست معلومات بھی مہیا کرتی ہیں۔ یہ روایات پڑھتے ہوئے انسان کا خون کھولنے لگتا ہے اور دل حلق میں جاکر اٹک جاتا ہے۔ یہ روایتیں جہاں قاتلینِ عثمانؓ کا تعارف کرواتی ہیں وہیں یہ نادر معلومات بھی بہم پہنچاتی ہیں کہ شہادتِ حسینؓ کے وقت سیدنا عثمانؓ کے پہرے داروں میں عوام میں معروف ناموں کے علاوہ بھی کئی حضرات موجود تھے اور یہ جو اعتراض کیا جاتا ہے کہ سوائے حضرات حسنین، عبداللہ ابن زبیر اور مروان رضوان اللہ اجمعین کے علاوہ کوئی سیدنا عثمانؓ کی پہرہ داری یا دفاع میں کھڑا نہ ہوا، کے بھی تار بود اکھیڑ کر رکھ دیتی ہیں۔
امام خلیفہ مکمل سند کے ساتھ امام نافعؒ کی روایت لائے ہیں کہ سیدنا عبداللہ بن عمرؓ محاصرے کے دنوں میں سیدنا عثمانؓ کے پاس تشریف لائے تو سیدنا مغیرہ بن اخنس وہاں پہلے سے موجود تھے۔ سیدنا عثمانؓ نے ابن عمرؓ سے فرمایا کہ دیکھو! یہ لوگ کیسی باتیں کرتے ہیں؟ کہتے ہیں کہ خلعتِ خلافت اتاردو اور خود کو ہلاکت میں مت ڈالو۔
سیدنا ابن عمرؓ نے کہا کہ اگر آپ منصبِ خلافت نہیں چھوڑتے تو وہ آپ کو قتل کرنے سے زیادہ کچھ کرسکتے ہیں؟ سیدنا عثمانؓ نے کہا: نہیں۔
سیدنا ابن عمرؓ نے کہا: کیا وہ آپ کی جنت اور دوزخ کے مالک ہیں؟ سیدنا عثمانؓ نے کہا: نہیں۔
سیدنا ابن عمرؓ نے کہا: ان سب باتوں کے پیشِ نظر میرا نہیں خیال کہ آپ کو وہ خلعت اتار دینی چاہیے جو اللہ نے آپ کو پہنائی ہے، اس لیے کہ پھر تو یہ ایک طریقہ بن جائے گا کہ جب بھی کچھ لوگ اپنے خلیفہ یا امام کو ناپسند کریں گے تو اس کو قتل کردیں گے۔
امام خلیفہ محمد بن سیرین کی سند سے سلیط بن سلیط کا قول نقل کرتے ہیں کہ ہمیں سیدنا عثمانؓ نے ان باغیوں سے لڑائی کرنے سے منع کردیا تھا وگرنہ ہم کو اجازت ہوتی تو ہم ان کو مار مار کر مدینہ منورہ کے کونے کونے سے نکال باہر کرتے۔ نافع کہتے ہیں کہ سیدنا عبداللہ بن عمرؓ نے سیدنا عثمانؓ کے مکان پر دھاوا بولے جانے کے دن دو مرتبہ زرہ بھی پہن لی تھی لیکن سیدنا عثمانؓ کے منع کرنے کے سبب آپ رکے رہے اور فسادیوں سے نہ الجھ سکے۔ نافع مزید بیان کرتے ہیں کہ سیدنا عبداللہ بن عمرؓ سیدنا عثمانؓ کی شہادت والے دن آپ کے ساتھ آپ کے گھر میں تھے اور تلوار اٹھائے ہوئے تھے تا آنکہ سیدنا عثمانؓ نے ان کو نہایت سختی و تاکید سے حکم دے کر گھر سے روانہ ہونے کا کہہ دیا کہ مبادا کہیں باغی سیدنا عثمانؓ کے ساتھ ان کو بھی شہید نہ کردیں۔
ہمارے ہاں عموماً یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ انصار سیدنا عثمانؓ کی حمایت کو نہ آئے اور اسی سبب بعد کے خلفائے بنو امیہ اس بات کو لے کر انصار سے کبیدہ خاطر رہتے تھے لیکن امام خلیفہ اس سلسلے میں بھی روایت لاکر ثابت کرتے ہیں کہ جیسے مہاجرین سیدنا عثمانؓ کی حمایت و نصرت میں کھڑے تھے ویسے ہی انصار بھی آپ کی حفاظت میں پیش پیش تھے۔
امام خلیفہ قتادہ کی روایت لائے ہیں کہ وہ فرماتے ہیں کہ سیدنا زید بن ثابتؓ سیدنا عثمانؓ کے پاس آئے اور ا ن سے عرض کیا کہ ھولاء الانصار بالباب یقولون: ان شئت کنا انصار اللہ مرتین فقال لا حاجۃ لی فی ذلک کفوا یعنی دیکھئے انصار آپ کے دروازے پر موجود ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ اگر آپؓ چاہیں تو ہم دو مرتبہ اللہ کے انصار بن کر دکھاتے ہیں (یعنی پہلی مرتبہ نبیﷺ کی حفاظت میں انصار بنے اور دوسری مرتبہ آپؓ کی حفاظت میں انصار بننے کا شرف پاتے ہیں)۔ تاہم سیدنا عثمانؓ نے یہ کہہ کر منع کردیا کہ مجھے تمہیں یوں انصار بن کر ( گویا رسول اللہﷺ کے ساتھ) برابری کرنے کی کوئی ضرورت اور حاجت نہیں ہے۔
امام خلیفہ دو مختلف روایات جو امام اعمش اور قتادہ سے مروی ہیں، میں سیدنا ابو ہریرہؓ کا طرز عمل بیان کرتے ہیں کہ سیدنا ابو ہریرہؓ تلوار ہاتھ میں لیے سیدنا عثمانؓ کے گھر میں ان کی حفاظت پر موجود تھے، یہاں تک کہ سیدنا عثمانؓ نے انہیں اپنا کرنے سے روک دیا اور گھر سے چلے جانے کا حکم دیا۔ امام خلیفہ محمد بن سیرین کی سند سے بیان کرتے ہیں کہ سیدنا حسن، سیدنا حسین، سیدنا عبداللہ بن عمر ، سیدنا عبداللہ بن زبیر اور سیدنا مروان بن الحکم رضوان اللہ اجمعین سب کے سب ہتھیاروں سے لیس سیدنا عثمانؓ کے گھر میں داخل ہوئے۔ سیدنا عثمانؓ نے ان کو اللہ کی قسم دے کر واپس لوٹا دیا اور ہتھیار اتار کر اپنے اپنے گھر میں بیٹھ رہنے کا حکم دیا۔ جس پر سیدنا عبداللہ بن عمر اور حضرات حسنین رضی اللہ عنہم دارِ عثمانؓ سے باہر آگئے جبکہ سیدنا عبداللہ بن زبیرؓ اور سیدنا مروانؓ نے یہ کہہ کر عذر پیش کردیا کہ ہم نے اپنے اوپر لازم کرلیا ہے کہ ہم یہاں سے ہلنے والے نہیں ہیں۔
موضوع کی مناسبت سے دوسرے ماخذ سے یہاں یہ بات نقل کردینا بھی مناسب ہوگا کہ علامہ ابن کثیر البدایہ و النہایہ کی جلد ۷ میں سنہ ۳۴ ہجری کے واقعات کے تحت لکھتے ہیں کہ سیدنا معاویہؓ مدینہ تشریف لائے اور سیدنا عثمانؓ کی خدمت میں عرض کیا کہ آپ میرے ساتھ ملکِ شام تشریف لے چلیں کیونکہ وہاں کے لوگوں میں امراء کی اطاعت عام ہے۔ سیدنا عثمانؓ نے فرمایا کہ میں دیارِ نبیﷺ کو چھوڑ کر کسی دوسرے مقام پر جانا پسند نہیں کرتا۔ اس پر سیدنا معاویہؓ نے دوسری تجویز سامنے رکھی کہ میں ملکِ شام سے ایک فوجی دستہ آپ کی خدمت میں بھیج دیتا ہوں جو آپ کی حفاظت و نگرانی بطریق احسن سر انجام دے گا۔ سیدنا عثمانؓ نے فرمایا کہ ایسی صورت میں یہ دستہ مدینہ کے باشندوں اور انصار و مہاجرین کے لیے تنگی کا باعث ہوگیا اور میری وجہ سے اہل مدینہ پر کوئی بوجھ پڑے مجھے یہ پسند نہیں۔ اس پر سیدنا معاویہؓ نے فرمایا کہ امیر المومنین خطرہ ہے کہ آپ پر اچانک حملہ نہ ہوجائے۔ سیدنا عثمانؓ نے فرمایا حسبی اللہ و نعم الوکیل یعنی اللہ میرے لیے کافی ہے۔ جب ان حفاظتی تدابیر پر سیدنا عثمانؓ راضی نہ ہوئے تو ابن کثیر لکھتے ہیں کہ ثم خرج معاویہ من عندہ و ھو متقلد السیف و قوسہ فی یدہ، فمر علی ملاء من المھاجرین و الانصار فیھم علی بن ابی طالب و طلحۃ و الزبیرؓ فوقف علیھم و اتکا علی قوسہ و تکلم بکلام بلیغ یشتمل علی الوصاۃ بعثمان بن عفانؓ و التحذیر من اسلامہ الی اعداءہ ثم انصرف ذاھبا یعنی پھر سیدنا معاویہؓ سیدنا عثمانؓ کے پاس سے نکلے۔ وہ اپنی تلوار اور کمان سے مسلح تھے اور مہاجرین و انصار کی مجلس میں گئے۔ سیدنا علی، سیدنا طلحہ، زبیر وغیرہم صحابہ کرامؓ کے پاس رکے اور اپنی کمان کے سہارے کھڑے ہوکر نہایت بلیغ کلام کیا جو کہ سیدنا عثمانؓ سے متعلق تھا اور ان حضرات کو سیدنا عثمانؓ کی سلامتی سے متعلق ان کے دشمنوں سے خبردار و متنبہ کیا اور پھر(شام کی طرف) روانہ ہوگئے۔ بعینہٖ یہی واقعہ علامہ ابن خلدون نے بھی جلد دوم میں حصار عثمانؓ و مقتلہ کے تحت سیدنا معاویہؓ کی مخافظین کو پیش کش کے ضمن میں نقل کیا ہے۔
یہ تو صرف سیدنا عثمانؓ کو پیشکش اور انصار و مہاجرین کو سیدنا عثمانؓ کی مدافعت و حفاظت سے متعلق تنبیہ کا ذکر تھا۔ آگے علامہ ابن کثیر سنہ ۳۵ ہجری کے واقعات کے ضمن میں لکھتے ہیں کہ جب باغی مختلف علاقہ جات سے مدینہ میں مجتمع ہوگئے اور انہوں نے سیدنا عثمانؓ کے گھر کا محاصرہ کرلیا یہاں تک کہ آپ ؓ کا مسجد نبویؓ تک جانا منع ہوگیا تو ایسے میں سیدنا عثمانؓ نے والئ شام سیدنا معاویہؓ ، والئ بصرہ سیدنا عبداللہ بن عامرؓ اور والئ کوفہ کو مدینہ منورہ کے ابتر حالات سے مطلع کیا اور مفسدین سے مدافعت اور مدینہ سے ان کے اخراج کے لیے فوجی دستے طلب کیے۔ اس پر سیدنا معاویہؓ نے شام سے سیدنا حبیب بن مسلمہ فہریؓ کی قیادت میں ایک لشکر روانہ کیا۔ یزید بن اسد قیشری نے بھی ایک دستہ ارسال کیا اور اسی طرح اہل کوفہ و بصرہ نے حفاظتی دستے مدینہ منورہ کی طرف بھیجے۔ لیکن جب مفسدین کو امدادی لشکروں کی آمد کی خبر ہوئی تو انہوں نے محاصرہ تنگ کردیا اور امدادی لشکروں کے مدینہ پہنچنے سے قبل ہی سیدنا عثمانؓ کو بعجلت شہید کردیا۔ (البدایہ و النہایہ ذکر حصر امیر المومنین عثمانؓ سنہ ۳۵ ہجری) بعینہٖ یہی بات البلاذری نے کتاب فتوح البلدان میں بھی نقل کی ہے۔
طوالت کے خوف سے اس تحریر کو یہاں ختم کرتے ہیں تاہم ان شاءاللہ اگلی تحریر میں امام خلیفہ کی تاریخ سے سیدنا عثمانؓ کی شہادت کا قصہ اور قاتلینِ عثمانؓ کی نشاندہی کریں گے۔ یہاں یاد رہے کہ امام خلیفہ کی تاریخ، تاریخِ اسلامی کا متقدم ترین ماخذ ہے اور امام خلیفہ تاریخی روایات مع سند نقل کرتے ہیں جن میں سے اکثر و بیشتر روایات صحت کے اعلیٰ معیار پر اترتی ہیں۔
محمد فھد حارث